محمد آصف ا قبال
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948 سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ جو خلافت عثمانیہ میں قائم رہا مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1948 میں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ اس کا دارالحکومت بیت المقدس تھا جس پر 1967 میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ شہر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں ہے۔
تاریخی اعتبار سے جس زمانہ میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ جو کنعانی یا فونیقی کہلاتی تھی، 2500قبل مسیح میں یہاں آ کر آباد ہو گئی۔ پھر آج سے 4000سال پہلے یعنی لگ بھگ 2000قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ار (Ur) سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحق علیہ السلام، کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤدعلیہ السلام،حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔
1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء4 اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر دفاعی حملہ کیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غاصب یہودیوں کو یہاں سے نکالا جاتا اور دفاعی جدوجہد کامیاب ہوتی برخلاف اس کے دفاعی جدوجہد کی ناکامی کے نتیجہ میں یہودی ریاست کے رقبے میں مزید اضافہ ہو گیا۔1949ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کئے او اس کے فوراً بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کواٹانومی سے محروم رکھا۔29 اکتوبر 1958ء کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبرکو جنگ بندی عمل میں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967ء تک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالئے گئے۔ مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی۔تاریخی روشنی میں یہ چند حقائق تھے۔لیکن چونکہ یہاں صرف تاریخ بیان کرنا مقصودنہیں ہے بلکہ اس جانب بھی روشنی ڈالنی ہے کہ موجودہ حالات میں یہ مسئلہ فلسطین مزید اپنی سنگینی کی جانب گامزن ہے اس کے باوجود فلسطینی عوام پرعزائم ہیں۔وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ مسائل نہ صرف جاری ہیں بلکہ گزشتہ سال جس طرح فلسطینیوں پر مظالم کے ڈھائے گئے وہ بھی ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ان حالات میں یہ سوال لازماً اٹھنا چاہیے کہ چہار جانب سے گھرے فلسطینیوں کی حد درجہ تکلیف دہ صورتحال میں امت مسلمہ وہ کون سا پر امن رویہ اختیار کرے جس کے نتیجہ میں نہ صرف مسئلہ کا حل ممکن ہوبلکہ اس کی کچھ راہیں ہموار ہوتی نظر آئیں؟ساتھ ہی اس بات پے بھی غور ہونا چاہیے کہ مظالم کے خلاف ملکی و بین الاقوامی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے کیسے اور کس طرح مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور احتجاج درج کرایا جائے؟
لیکن اس سے پہلے کہ ہم مسئلہ کا حل تلاش کریں آئیے دو واقعات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ایک پچاسی سالہ یہودی خاتون اَوی تال بن خورِین 1923ء کا ہے جو جرمن شہر Eisenach میں پیدا ہوئیں۔ تب ان کا نام ایرِیکا فاکن ہائیم تھا۔ نو عمری ہی میں انہیں اپنے یہودی مذہب اور صیہونیت کے ساتھ لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ جرمنی میں نازی سوشلسٹوں کے برسرِ اقتدار آنے کے تین سال بعد ہی اِس یہودی لڑکی نے جرمنی چھوڑنے اور فلسطین جانے کا فیصلہ کیا۔وہ کہتی ہیں”میں نے تیرہ سال کی عمر میں نقل مکانی کی اور یہاں آ کر فلسطینی شہریت اختیار کر لی۔ یہ 1936ء کی بات ہے۔ حائفہ کی بندرگاہ پر اترنے کے بعد اَوی تال جرمن تارکین وطن کے قائم کردہ قصبے کِیریات بیالِیک میں پہنچیں، جہاں نو عمر یہودیوں کے لئے ایک یوتھ ہوسٹل موجود تھا۔ جب نومبر1947ء میں فلسطین کی تقسیم سے متعلق اقوامِ متحدہ کا فیصلہ سامنے آیا اور ایک سال بعد ریاست اسرائیل قائم ہوئی تو اَوی تال یروشلم میں تھیں۔ اِسی دوران ان کی جرمن شہر میونخ سے تعلق رکھنے والے مذہبی فلسفے کے ماہر شالوم بن خورِین کے ساتھ شادی بھی ہو چکی تھی۔ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:”تب یہاں جشن کا سا سماں تھا کہ اب ہماری اپنی ایک ریاست ہو گی۔ یہ بہت ہی چھوٹی سی ریاست تھی لیکن ہم نے سوچا کہ چھوٹی سہی، پَر اپنی تو ہے۔تو دوسرا واقعہ 14 مئی 1948ء کے دن سے ہی فلسطینیوں کی گھر بدری کا ہے ۔ وہ اِسے یومِ نکبہ یا آفت کا دِن قرار دیا گیا۔ اُس روز جن فلسطینی خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، ان میں سے ایک خاندان فواض ابو سِتہ کا تھا، جو آج کل غزہ میں رہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں” میرا تعلق ایک بدّو قبیلے سے ہے اور ہم بِیر شے وا کے علاقے میں رہا کرتے تھے، جس کی سرحدیں غزہ سے ملتی تھیں۔ لیکن جب انیس سو سینتالیس اڑتالیس کا دَور آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ابو سِتہ قبیلے کو زبردستی اس گاؤں سے نکال دیا گیا۔اِس گاؤں پر تین اطراف سے حملہ کیا گیا۔ قبیلے کے چار سو سے زیادہ اراکین نے بھاگ کر نواحی غزہ میں پناہ لی۔ یہیں پر1953ء میں فواض کی پیدائش ہوئی۔ اس کی پرورِش ایک ایسے مہاجر کے طور پر ہوئی، جسے امید تھی کہ ایک روز وہ اپنے قبیلے کے پرانے علاقے میں لَوٹ کر ضرورجائے گا۔ لیکن کئی برس جرمنی میں رہنے کے بعد، جہاں اس کی شادی بھی ایک جرمن خاتون سے ہوئی، فواض کی انپے آبائی وطن واپسی کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔دوواقعات کی روشنی میں یہ وہ حقیقی صورتحال ہے جس کے در رخ آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں!
صورتحال اور واقعات کی روشنی میں جب ہم پر امن طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے نیز ملکی و بین الاقوامی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں تو ہماری سمجھ کی حد تک ایک ہی طریقہ موثر اور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔اور وہ ہے اسرائیلی معیشت پر اثرانداز ہونے کا طریقہ۔حقیقت یہ ہے کہ معیشت ہی کسی قوم وگروہ کو مستحکم کرتی ہے تو وہیں دوسری جانب معیشت پر کاری ضرب ،اسے کمزور کردیتی ہے۔عالم اسلام کے مسلمانوں کو جہاں تک فلسطینی بھائیوں کے اصولی اور جائز مطالبات کا ساتھ دیتے ہوئے تعاون کرنا چاہیے، اس کا آسان طریقہ یہی نظر آتاہے کہ ہمیں اسرائیلی معیشت پر ضرب کاری کرنی چاہیے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے اور ایک عظیم تر اسرائیل کا خواب دیکھتے ہیں،جو بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے بھی کسی طرح جائز نہیں ہے۔پھر جس طرح وہ اپنی آبادیوں کا مزید پھیلاؤ کرتے جا رہے ہیں، اُس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کو طول دے رہے ہیں اور حل کی بجائے مزید مسائل پیدا کرنا ہی ان کے پیش نظر ہے۔اس پس منظر میں اسرائیلی پراڈکٹس کا کلی بائیکاٹ ، ایک پرامن اور جائز طریقہ ہوسکتا ہے ،جس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ متوجہ ہوں گے بلکہ دنیا کے دیگر افراد و گروہ بھی مسلمانوں کے موقف کا ساتھ دیں گے۔لیکن قبل از وقت دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان خود اس مسئلہ فلسطین سے کتنی دلچسپی رکھتے ہیں؟مجوزہ عمل کے نتیجہ میں یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ امت جو بین الاقوامی سطح پر ایک جسم کی مانند ہے،اس کا ایک جز، اگر متاثر ہوتا ہے،تو بحیثیت جسم ہم اُس درد، تکلیف اور کرب کو کتنا محسوس کرتے ہیں ؟کیونکہ فیصلہ کوئی اور نہیں ہم خود ہی کریں گے کہ ایک ذی علم اور باشعور مسلمان کی حیثیت سے دنیا میں آج ہم کس مقام پہ ہیں ؟پھر جس حیثیت سے بھی ہم دنیا کے سامنے آئیں گے اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا ہم سے معاملات کرتی آئی ہے اور آئندہ بھی کرے گی! (ملت ٹآئمز)
maiqbaldelhi@gmail.com