” بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا “

محمد عباس دھالیوال
 جب بھی کبھی ادبی حلقوں میں عظیم شعراء کے بارے  میں گفتگو ہوتی ہے تو تین بڑے نام ہمارے سامنے آتے ہیں میر تقی میر، غالب اور اقبال…لیکن یہاں قابل ذکر ہے کہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر اقبال میں خدا نے مذکورہ پہلے دونوں شعراء کے کلام میں پائی جانے والی مختلف خوبیاں اور اوصاف کو گویا ایک جگہ یکجا کر دیا تھا . اس کے ساتھ اقبال معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مصنف، قانون دان، مسلم صوفی اور سلجھے ہوئے سیاست دان بھی تھے. یہی وجہ ہے کہ جب کبھی سر ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کا نام ہمارے سامنے آتا ہے تو یہ عظیم نام ذہن و دل کو ایک طرح سے  منور و روشن کرتا ہوا نظر آتا ہے یعنی جب ان کے کلام کو ہم لوگ اپنے مطالعے میں لاتے ہیں تو مانو ہم پہ ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
اقبال نے اردو اور فارسی دونوں میں معیار ی شاعری کے وہ نئے ایام قائم کیے جن کی آج تک نظیر نہیں ملتی اور بنا شک یہی ان کی بنیادی  شہرت کی اہم وجہ ہے۔ آپ کی شاعری کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف گامزن تھا۔ اقبال نے “دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام” کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ 
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء بمطابق 3 ذوالقعدہ 1294ھ کو  موجودہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کیا جاتا ہے۔
اقبال کے آباء و اجداد کے متعلق محققین نے کہا کہ آپ کے آباؤ اجداد قبولِ اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ چلے گئے تھے اور وہاں جا کر محلہ کھٹیکاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نُور محمد کشمیر کے سپرا برہمنوں کے خاندان میں سے تھے۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضُرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آ بسے۔ ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا۔ کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں چلے آئے جو آج کل اقبال بازار کہلاتا ہے اور ایک چھوٹا سا مکان لے کر وہیں  رہنے لگے، مرتے دم تک یہیں رہے۔ ان کی وفات کے بعد شیخ نُور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکان کو مذید وسیع کر لیا۔
اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد ایک خالص دیندار آدمی تھے۔ وہ بیٹے اقبال کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ چنانچہ اقبال کی بچکانہ عمر میں وہ انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ مولانا ابوعبد ﷲ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے.یہیں سے اقبال کی شروعاتی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد معروف مولانا سید میر حسن نے  شیخ نور حسن کو اقبال کو صرف مدرسہ کی تعلیم تک محدود رکھنے کی بجائے جدید تعلیم مہیا کروانے پر زور دیا.  انھوں نے اپنی دلی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اقبال کو انکی تربیت میں دیئے جانے پر اصرار کیا ۔ چنانچہ کافی غور و خوض کے بعد شیخ نور محمد اقبال کو میر حسن کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا. یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ قائم رہے اور اکثر اوقات اسکول سے آتے وقت استاد کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ میر حسن بھی ان عظیم استادوں میں سے تھے جن کی زندگی کا واحد نصب العین بس  پڑھنا اور پڑھانا تھا ۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا ان کے یہاں صرف کتاب خوانی کا نام نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں استاد اصل معنوں میں استاد ہوا کرتے تھے جو اپنے طلباء کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف پیچ و خم سے آگاہ و روشناس کرواتے تھے۔
اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا، یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی شاعری کا آغاز ہوا ۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کو لگاؤ بچپن ہی سے  تھا ، جس کے چلتے کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پورے ہندوستان میں داغ کا نام گونج رہا تھا۔ خصوصاً اُردو زبان پر جو معجزانہ گرفت و فوقیت داغ کو حاصل تھی ۔ اقبال کو ایسا ہی استاد درکار تھا ۔ چنانچہ اقبال نے شاگردی اختیار کر نے کے لئے درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ نے اپنی بے نظیر بصیرت سے شاید یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اقبال جیسے ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ اور استاد داغ نے یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر ہمیشہ ناز و فخر کرتے رہے ۔
اسی دوران 1893ء میں اقبال نے دسویں کا امتحان پاس کیا اور 1895ء میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے۔ جہاں آپ نے گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے۔ اور بی اے میں انگریزی، فلسفہ اور عربی مضامین کا اپنے لیے انتخاب کیا ۔ اور ساتھ ہی عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اورینٹل کالج تشریف لے جاتے ۔ 1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کی شخصیت سے آپ بے حد متاثر ہوئے. انھیں سے مستفید ہوتے ہوئے آگے چل کر اقبال نے اپنی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کیا۔
1899ء میں ایم اے کا امتحان میں پنجاب بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی. اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے۔ نومبر 1899ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعتی انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں لے گئے۔ بڑے بڑے استاد شعراء موجود تھے اور ساتھ ہی سامعین کا بھی اچھا خاصا ہجوم جڑا تھا. اقبال چونکہ بالکل نئے تھے، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔ چنانچہ اقبال نے اپنی غزل پڑھنا شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

تو اچھے اچھے استاد شعراء داد و تحسین دینے کے لیے مجبور ہو گئے یہیں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد اقبال نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور مشاعروں میں باصرار بُلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ اقبال نے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم. اے. پاس کرنے کے بعد اقبال نے 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔  اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس کے دوران اقبال نے اسٹبس کی ’’ارلی پلائجنٹس‘‘اور واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘ کا اردو میں تلخیص و ترجمہ کا کام انجام دیا. اس کے علاوہ شیخ عبد الکریم الجیلی کے نظریۂ توحیدِ مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر و جامع  کتاب بھی تصنیف کی جو 1904ء میں شائع ہوئی۔ اردو میں اس کا شمار موضوع کے اعتبار سے اپنی نوعیت کی  پہلی کتابوں میں ہوتا ہے. اس سے قبل اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہو گئی تو 1903ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے آ پ کی گورنمنٹ کالج میں تقرری ہو گئ ۔اس کے بعد میں فلسفے کے شعبہ میں چلے گئے۔ 
1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا. ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ اس کے بعد اقبال جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
 ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی جو لائی 1908 ء کو نتیجہ نکلا تو آپ کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد ہندوستان واپس آگئے کچھ عرصے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر مئی1910 ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا لیکن ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔  اس دوران آپ کی مصروفیات میں روز بہ روز اضافہ ہو تا گیا . اسی بیچ آپ کئی اداروں اور انجمنوں سے وابستہ ہو گئے اور ساتھ ہی برصغیر کی کئی جامعات کے ساتھ بھی منسلک ہو گئے ۔ اسی دوران اقبال نے لالہ رام پرشاد پروفیسر تاریخ‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر  ایک نصابی کتاب تاریخ ہند مرتب کی۔ اس کے علاوہ زندگی کے مختلف ادوار و مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی اور سنڈیکیٹ وغیرہ کے ممبر بھی رہے۔ جبکہ 1919 ء کو اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے اور 1923 ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی اس دوران پنجاب ٹیکسٹ بک کمپنی کے بھی رکن نامزد ہوئے اور اسی دوران 1923 ء میں آ پ سر کے خطاب سے سرفراز کیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1923 ء تک جڑے رہے۔ 1930 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ آپ کی شاعری ہمیشہ برصغیر کے لوگوں خصوصاً مسلمانوں کیلئے مشعل راہ بنتی رہی ہے ۔ جس کے نتیجے میں اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ اس کلام کو اپنے مطالعہ لاتے ہیں اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کی کئی کتب کے انگریزی‘ جرمنی‘ فرانسیسی‘ جاپانی‘ چینی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ اقبال کے مختلف اشعار آج مثلِ محاورہ استعمال ہوتے ہیں. ان میں چند اشعار قارئین کی نذر ہیں کہ

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے 

کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے 

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے 

گفتار کا غازی بن تو گیا، کردار کا غازی بن نہ سکا 

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری 

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری 

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے 

من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا 

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 

یہ خاکی اپنی فطرت ہے کہ نوری ہے نہ ناری ہے 

اقبال کا شکوہ و جواب شکوہ نظم جو آج بھی مسلمانوں کے حالات کی اسی طرح ترجمانی و عکاسی کرتی نظر آتی ہے جیسے کہ آج سے قریب سو سال پہلے کرتی تھی. 

جرات آموز میری تاب ِ سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

اے خدا شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

اس نظم کا نام ”شکوہ“ اس لیے رکھا گیا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے شکوہ بارگاہ الہٰی میں علامہ اقبال یا دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے۔
 اقبال نے شکوہ میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ بقول سلیم احمد ،” ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوب کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کے سزاوار اور دوسری طرف یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکرائو سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ”شکوہ “ کا موضوع ہے۔“جبکہ شکوہ کے ضمن میں اقبال اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں کہ ” وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی ظاہر کر دی گئی“
اقبال کے خودی کے تصور کو لیکر ادبی حلقوں میں کافی بحث و تکرار ہو تی رہتی ہے لیکن اس ضمن میں ”اسرار خودی“ دیباچہ کے پہلے ایڈیشن میں لکھتے ہیں کہ 
” ہاں لفظ”خودی “ کے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی ”غرور “استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعینِ ذات ہے۔“ ان کی مذکورہ عبارت کا مفہوم  اس شعر میں ادا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ 

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں 

جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں

 تصور خودی کو آگے بڑھانے میں ایک اور چیز جو اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال کے کلام میں وہ کبھی آرزو اور کبھی عشق کی شکل میں ہمارے سامنے آ موجود ہوتی ہے۔ مذکورہ خیالات کی عکاسی کرتے چند اشعار دیکھیں کہ۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم

عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم

اقبال نے عشق کے کئی مدارج بیان کیے ہیں،

عشق فقیہہ حرم، عشق امیر جنود

عشق ہے ابن اسبیل، اس کے ہزاروں مقام

ڈاکٹر عابد حسین ”خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون’ ’ اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں، کہ

” اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اُس مرد ِکامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔“

مردِ خدا کاعمل، عشق سے صاحب فرو غ

عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام

گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا تا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے۔

ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچھری 

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری 

اک فقر سے مٹی میں خاصیت ِ اکسیری

اقبال  خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو ناتمام محسوس کرتے ہیں شاید اسی کشش کو عشق ِ حقیقی کا نام دیا جاتا ہے. کہ

عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں

یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تو ہے محیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آب جو

یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنا ر کر

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

مقام ِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

بندگی میں انسان کو سکون ملتا ہے بحرحال یہ جدائی انسان کے لیے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات ہے۔

مختصراً ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور  نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہء حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک چیز ہے، جس کے بارے میں احادیث میں بھی موجود ہے۔کہ  ”یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“

بس ہم یوں سمجھ لیں کہ اقبال نے ہمیں اپنی ذات کے عرفان کا جو درس اپنے کلام میں دیا ہے وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

نثر میں علم الاقتصاد – 1903ءفارسی 

اسرار خودی – 1915ء

رموز بے خودی – 1917ء

پیام مشرق – 1923ء

زبور عجم – 1927ء

جاوید نامہ – 1932ء

پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق – 1931ء

ارمغان حجاز (فارسی – اردو) – 1938ء

 اردو شاعری میں 

بانگ درا – 1924ء

بال جبریل – 1935ء

ضرب کلیم – 1936ء

انگریزی تصانیف میں 

فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – 1908ء

اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – 1930ء

وغیرہ شامل ہیں
بر صغیر کا یہ عظیم شاعر جسے لوگ شاعر مشرق کے نام سے بھی جانتے اور پہچانتے ہیں. آخر کار 21 اپریل 1938 کو لاہور اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو گیا اور اپنے پیچھے کبھی نہ پوری ہونے والی ایسی خلاء پیدا کر گیا جس کی کبھی بھرپائی نہیں ہو سکتی. لیکن انکا کلام آج بھی ہمارے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

رابطہ: 9855259650
abbasdhaliwal72@gmail.com