ابرار احمد اجراوی
علامہ اقبال صرف شاعر نہیں تھے، عظیم المرتبت مفکر اور بلند پایہ فلسفی بھی تھے۔ شاعر بھی ایسے نہیں، جن کے ہاں رومان پروری اور نام نہاد عشق وعاشقی کا عنصر اس درجہ غالب ہو کہ ا ن کا ذہن زمینی حقائق اور سنگلاخ سچائیوں سے منھ موڑ لے ، انھوں نے تو فکر و فن کی دوئی کو ایک نا قابل تقسیم اکائی میں تبد یل کردیا تھا اور ادب برائے ادب کی تخیلاتی دنیا کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ علامہ اقبال ایسے شاعر تھے جن کے ہاں ادب وسیع تر اسلامی اور سماجی مقاصد کی تکمیل کا مستحکم ذریعہ تھا اور وہ ادب صرف انسان کی جمالیاتی حس کو ہی نہیں محظوظ کرتا تھا، بلکہ اس کے عقل و وجدان، اس کی فکر و خیال اور اس کے سماجی اور معاشرتی تصورات پر بھی ہمہ گیر اور بھرپور طور پر اثر انداز ہوتا تھا۔ اقبال جہاں بڑے شاعر تھے، وہیں اسلامی وملی درد رکھنے والے اور قومی غیرت و حمیت سے سرشار سچے اور پکے مسلمان بھی تھے۔ انھوں نے امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنے، انھیں فراموش ماضی کی یاد دہانی کرانے اور انھیں خیر امم کے مطلوبہ منصب پر لا کھڑ اکرنے کے لیے پیمبرانہ مقاصد کے تحت شاعری کے ہتھیار سے کام لیا۔ناقدین اپنے مفروضات کی بنیاد پرخواہ کچھ بھی رائے قائم کریں، حقیقت یہ ہے کہ یہی تذکیری دور ان کی شاعری کا نقطئہ عروج ثابت ہوا۔
علامہ اقبال کی تعلیم و تربیت ایسے اسلامی اور دینی ماحول میں ہوئی تھی کہ اسلام، انبیاء ، صلحاء، صوفیاء اور علمائے کرام سے محبت ایام طفولت میں ہی ان کے خمیر میں رچ بس گئی تھی۔ حب رسول اور عشق نبوی تو ان کے شریانوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میری محبت تمھارے دل میں اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوئے علامہ اقبال حب نبوی اور عشق رسول کو ایمان کی بنیاد واساس تصور کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کا نام زبان مبارک پر آتے ہی یا آپﷺ کانام کانوں میں پڑتے ہی احساس وشعور میں سوز وگداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اورتفکرات کی لا محدود دنیا میں کھو جاتے تھے اور پر نم آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ ذکر نبوی کیا چھڑ تا کہ ان کے جذبات پر رقت کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ چند ثانیوں میں بے قابو اور بے تاب ہو گئے۔ عشق رسول ، صحابئہ کرام سے محبت ان کی شاعری کا جزو اعظم تھا۔ اور عشق نبوی کی آگ نے غیر محبوب کے سارے تصورات کو جلا کر خاکستر کردیا تھا۔علامہ اقبال کی حضور پرنور ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبت اتنی دو آتشہ تھی کہ پنجاب کے ایک صاحب ثروت کی شان دار کوٹھری کے مخملی اور نرم بسترے پر اس لیے رات نہیں گزاری اور پوری رات ایک کرسی پر بیٹھ کر روتے اور سسکتے ہوئے یہ کہہ کر گزاردی کہ ” جس رسول پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سو کر زندگی گزاردی تھی۔ “ اگر چہ انھیں مدینہ منورہ اور روضئہ مطہرہ کی زیارت نصیب نہ ہوسکی، اور مقدرات خداوندی کے تحت فریضئہ حج کی ادائیگی کی سبیل موت تک نہ نکل سکی،لیکن سر زمین حجاز اورمدینہ منورہ کی زیارت کی تمنا دل کے ریشے میں اس قدرپیوست ہو گئی تھی کہ گھنٹوں روضئہ نبوی کی سنہری جالیوں کے تصور اور مکہ و مدینہ کی سنگریزو ں والی وادیوں کے تخیل میں گزاردیتے تھے۔ اخیر عمر میں جب کہ شدید بیماری کے سبب اعضائے جسمانی کمزور ہو گئے تھے، یہ ایمانی آرزو اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ سید عبد الرشید فاضل علامہ اقبال کے حب نبوی اور تصور محبوب کے استغراق اور محویت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ذات قدسی صفات سے علامہ کا تعلق اتنا مضبوط تھا کہ تصور کرتے ہی علامہ کی حالت دگر گوں ہو جاتی تھی اور”میں نے خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور کے مرقد مبارک پر حاضر ہوں گے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ وہیں جاں بحق ہوجائیں گے۔“( اقبال اور محبت رسول، ص:۱۴۷)
علامہ اقبال کی شاعری کو لازوال وجود بخشنے کے لیے عشق اور محبت پر مبنی عنصر ضروری بھی تھا کہ عشق و محبت سے ہی کسی فکر اور کسی فلسفے کو آنچ ملتی ہے۔عشق اور محبت کی قلمرو کی کوئی انتہا نہیں۔ دنیائے آب وگل کا وجود محبت کا ہی رہین منت ہے۔ اگر خدا کو اپنا جلوئہ جہاں آراء دیکھنا منظور نہ ہوتا تو یہ حسین اور رنگ برنگی دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی۔ کیا انسان اور کیا حیوان سبھی محبت اور عشق کی مقدس زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ روئے ارضی کا ذرہ ذرہ عشق ومحبت کا منبع اور مرکز ہے۔ اگر عشق ومحبت کے پاکیزہ عناصر سے روئے ارضی خالی ہوجائے تو دنیاتاریکی اور ظلمات کی گہوارہ بن جائے۔ اور سطح ارضی حیوانیت اور درندگی کی آماجگاہ بن جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق کے کئی مدارج ہیں اور اختلاف مدارج ہی محبت اور عشق کے تصورات کے حسن وقبح کا تعین کرتا ہے۔ محبت کی فسوں سازی اور اس کی ہمہ گیری کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ر”حمة للعالمین “قاضی محمد سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں۔:”محبت ہی قوت قلب ہے۔ محبت ہی غذائے روح ہے۔ محبت ہی قرة عین ہے۔ محبت ہی حیات الابدان ہے، دل کی زندگی، زندگی کی کامیابی، کامیابی کو دوام و بقابخشنے والی، غرض محبت ہی سب کچھ ہے۔ “
علامہ اقبال بھی کارزار حیات میں عشق او ر محبت کی تاثیرکے قائل تھے۔ عشق ہی آداب خود آگا ہی سکھاتا ہے۔ اسی سے خودی کو استحکام ملتا ہے۔ اور ہر عمل کو عشق ہی دوام وخلودعطاکرتا ہے۔ عشق سے ہی زندگی کو آب وتاب ملتی ہے اور اسی سے زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔مسجد طرقبہ اور تاج محل کو عشق ومحبت کی طلسمی تاثیر نے ہی دوام بخشا۔ علامہ اقبال عشق کی تاثیر اور اس کے تقدس و پاکیزگی کے حوالے سے کہتے ہیں۔
عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
عشق کے مضراب سے نغمئہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات
علامہ اقبال نے سیرت سرور دو عالمﷺ اور قرآن کریم کے عمیق مطالعے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا تھا وہ یہ تھا کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات با برکت تمام ظاہری اور باطنی کمالات کا مخزن اور منبع ہے۔ ایمانی تکمیل کے لیے آپ کی ذات تک رسائی ناگزیر ہے۔ اگر کوئی صاحب ایمان ذات اقدس تک رسائی کی دولت سے محروم رہا تو وہ بو لہبیت میں اسیر اور جاہلیت کا گرفتار ہے۔
قرآن کریم اور احادیث نبوی میں عشق کا لفظ تو استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ اس مفہوم کے لیے ”محبت“ اور ”حب “کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ عربی زبان کی رو سے دنیوی متعلقات کے سبب عشق کے معنی میں ذرا سی کراہیت کا پہلودر آتا ہے۔ لیکن آگے چل کر عشق اور محبت مترادفات کے طور پر استعمال ہونے لگے۔ احتیاط کے پہلو پر عمل کرتے ہوئے بعض مصنفین عشق کے پہلو بہ پہلو محبت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ محبت کیا ہے۔ سید محمد ذوقی شاہ لکھتے ہیں۔ ” محبت ایک کشش مقناطیسی ہے۔ جو کسی کو کسی کی جانب کھینچتی ہے۔ “
علامہ اقبال کا دل عشق رسول سے معمور تھا۔ عشق نبوی کی روشنی سے ان کے دل کی پوری کائنات منور تھی۔ دل میں اتنا سوز وگداز تھا کہ سرکار دوعالم کا نام لبوں پرآتے ہی بے تاب ہوجاتے ، ماہی بے آب کی طرح تڑپتے اور اندروں میں زیر وزبر ہونے والے جذبات کا عالم دیدنی ہوتا تھا۔ اقبال شان نبوی میں زبان درازی اور دشنام طرازی تو دور کی بات ہے، ادنی گستاخی کو بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ اقبال حب نبوی سے اس قدر سر شار تھے کہ اگر کوئی آپﷺ شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا تو برہمی کا وہ اظہار کرتے کہ ایسامعلوم ہوتا کہ غصے اور تمتماہٹ کی وجہہ سے پھٹ پڑیں گے ۔ علامہ اقبال عشق رسول کی دولت کو سرّ دین اور عقبی کی کامیابی کا مدار بھی کہتے تھے۔ ایک بار کسی نے آپ کی محفل میں شان اقدس میں گستاخانہ الفاظ ادا کیے تو نہ صرف اس کو اسی موقع پرسخت سست کہا بلکہ تنبیہا اس کو اپنی محفل سے بھی نکلوا دیا کہ حب نبوی کا تقاضا یہی تھا۔اگر آج علامہ اقبال با حیات ہوتے اور سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے بد نام زمانہ مصنفین کی گستاخیوں کا انھیں علم ہوتا تو ان کے رقت آمیز قلب و دماغ پر کیسی قیامت گزرتی اور وہ اس کا کتنا سخت نوٹس لیتے ، اس کا محض اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور ﷺ کی شان میں نا زیبا تبصرہ کیا۔مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیا، مگر نتیجہ صفر رہا۔ ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ مذبوحی حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقوسے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔ وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:” جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔“
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ ﷺ کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزاکا مستحق نہیں گردانا۔ آخر غازی علیم الدین کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی “ کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر وقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر
۱۹۰۵ء میں سفر یورپ سے قبل علامہ اقبال بھی غزل کے پیمانے میں روایتی قسم کی نعت لکھا کرتے تھے، لیکن جب یورپ کے سفر نے انھیں مسلمان کردیا اور ان کی فکر اور تخیل نے ایک ہی جست میں سارے فاصلے عبور کرلیے تو انھوں نے حب نبوی سے لبریز وہ نعتیہ مضامین رقم کیے کہ اس کی ہر سطر کیا ہر لفظ سے محبت، عشق، عقیدت، شیفتگی ووارفتگی اور ذوق وشوق کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ سفر یورپ کے بعد انھوں نے جو نعتیہ شاعری کی اس کا اسلوب اور لہجہ پہلے سے یکسر مختلف تھا۔ ایسی شاعری کو ہی جزو پیغمبری سے تعبیر کیا گیا ہے۔یورپ سے واپس لوٹنے کے بعد ” بلاد ااسلامیہ“ کے عنوان سے جو نظم لکھی، اس میں مسلمانوں کے جاہ وجلال، ان کی عظمت رفتہ اور ممالک اسلامیہ کے مرکزی مقامات دلی، بغداد، قرطبہ اور قسطنطینیہ کو تمام تر علوم وفنون اور تہذیب وثقافت کا مرکز اور سر چشمہ قرار دینے کے باوجود ان سب کو ” خواب گاہ مصطفی “ حجاز اورمدینہ منورہ کے تقدس اور عظمت و جلال کے سامنے ہیچ اور کمتر تصور کرتے ہیں اور اس کو خاتم ہستی میں نگینے سے تشبیہ دیتے ہیں، کیوں کہ اس کی آغوش میں شہنشہاہ معظم اور اقوام عالم کا ماوا وملجا اور رہبر انسانیت آسودہ خواب ہے۔
وہ زمیں ہے تو ، مگر اے خواب گاہ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
وہ اگر چہ اپنے جسم وجثے کے ساتھ حجاز مقدس میں فروکش نہ ہو سکے، لیکن ان کے تخیلات کا طائر ہمیشہ مکہ او رمدینہ کی فضاوٴوں میں ہی محو پرواز رہتا تھا۔ عشق نبوی کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ حجاز اقدس کی زیارت اور روضئہ اطہر کی زیارت کا کلمہ ہر وقت ان کے ورد زبان رہتا تھا۔اقبال کسی ایسی ہوا کے انتظار میں تھے جو انھیں مکہ او رمدینہ کی مقدس وادیوں کی غبار تک پہنچادے اروہ وہیں کی کنکریلی اور پتھریلی خاک کا پیوند بن جائیں کہ ایک سچے عاشق کے لیے غم دوراں سے نجات اور وصل محبوب کا یہی ایک راستہ ہوسکتا ہے۔
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجازکرے
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتاہوں زمین حجاز میں
بال جبریل کے ایک قصیدے کے درج ذیل شعرمیں لفظوں کے انتخاب اورجملوں کی متناسب نشست نے وہ جامعیت پیدا کردی ہے کہ اس پر طویل تحقیقی مقالے قربان کیے جاسکتے ہیں۔
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طاہا
اقبال کے پیغام کا نچوڑ او رماحصل نظریہ خودی میں سما گیا ہے۔ خودیایک سادہ لفظ ہے، مگر اس کی گہرائیوں میں اتریے تو وہ ایک بحر ناپیدا کنار ہے۔خودی کے ترکیبی عناصر کیا ہیں۔ خودی کی تربیت کے کتنے مراحل ہیں، مرد کامل اور مرد مومن کو کن صفات کا مرکز ومحور ہونا چاہیے۔ اقبال نے خودی کے فلسفے کی طولانی بحثوں کو تمام مالہ اورماعلیہ کے ساتھ ان دو شعروں کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین وآ سمان و کرسی وعرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
حیات نبوی ﷺ میں معراج نبوی کی جو اہمیت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ صر ف ایک نبی کی جسمانی معراج ہی نہیں تھی، بلکہ اس کے دروں میں انسان کی عظمت اور اس کی بلندی کا پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ کیا زمین وآسمان، کیا برگ وشجر،اور چاند ستارے، سارے جن و ملائکہ انسان کی عظمت ورفعت کے سامنے ہیچ ہیں۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ اقبال راہ نبوی میں عشاق کے قافلے کو رہزنوں کے ذریعے لوٹ لیے جانے کو بھی باعث صد افتخار تصور کرتے ہیں۔ اب تو سعودی حکومت کی زبردست حفاظتی خدمات کی وجہہ سے حجاز مقدس کا راستہ پر امن ہو گیا ہے،مگر آج سے چودہ سو سال کا سفر مکہ کسی سند باد کے پر خطر سفر سے کم نہ تھا۔ یہی وجہہ تھی کہ بہت سے لوگ ’ محمل شامی‘ کی معیت میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے ، لیکن علامہ اقبال خوف اور شوق کی کشاکش کو بیان کرتے ہوئے ا س سفر کے خطرات کو بھی بخوشی انگیز کرنے کا در س دیتے ہیں اور اس سفر میں اگر اپنی حقیر سی متاع حیات بھی قربان ہوجائے تو کوئی پروا نہیں کرنا چاہیے کہ اس کا اصلی نشیمن تو راہ شوق میں قربان ہوجانا ہے۔ عشق نبی سے سر شار قلب میں اسی قسم کے تصورات جاگزیں ہو سکتے تھے۔ ” ایک حاجی مدینے کے راستے میں “ یہی کچھ کہتے ہیں:
خوف کہتا ہے کہ ” یثرب کی طرف تنہا نہ چل“
شوق کہتا ہے کہ ” تو مسلم ہے بیباکانہ چل“
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے
علامہ اقبال مشہور غزلیہ استعارہ باد صبا کے ذریعے بھی اپنا پیغام او راپنے دل کا حال اپنے محبوب سرور کائنات ﷺ تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ مصیبت کے وقت اور مایوسی کے عالم میں یہی ایک قدرتی سہارا انسان کے پاس باقی رہ جاتا ہے۔بانگ دار کی ایک غزل میں کہتے ہیں:
اے باد صبا کملی والے سے جاکہیو پیغام مرا
قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی
اور کبھی کبھی اپنے محبوب سے شکوہ سنجی بھی کرتے ہیں کہ محبت کا اونچا اور اعلی ترین مقام یہی ہے۔ اے روح محمد ﷺ کا یہ اشعار دیکھیے:
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب توہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد
آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے
اقبال اپنے عمیق مطالعے اور مبنی بر تجزیہ مشاہدے کی بنیاد پر اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ان کی مذہبی وسماجی مشکلات کے حل کی کلید ذات نبوی اور اسوئہ رسول میں پوشیدہ ہے۔ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہمیں اس لیے دے مارا کہ ہم نے اپنے اسلاف کی میراث گنوادی ۔ علامہ اقبال ہر مصیبت اور پریشانی کے وقت در نبوی پر اپنی جبین نیاز خم کرتے ہیں۔ ان کے تصور سے اپنے مشام جان کو معطر کرتے ہیں اور انھیں کے پرنور مرقد سے دستگیری کی التجا کرتے ہیں۔ علامہ اقبال حضور رسالت مآب کے در دولت پر ہی اپنا دکھڑا سناتے اور اپنی بے کلی اور بے چینی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ بانگ دار کی نظم”خطاب بہ نوجوانان اسلام“ میں انھوں نے مسلم نوجوانوں کو انھی اسلامی خطوط پر غور وفکر کرنے اور انھیں ا پنے بھولے ہوئے ماضی کو یاد کرنے کی تلقین کی ہے کہ اسی راہ سے امت مسلمہ کے درد کا مداوا کیا جاسکتا ہے اور اس کو زندگانی کی پرخار وادیوں سے بآسانی نکالا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال عظمت رفتہ کی بازیابی اور دنیا کے منظرنامے پر اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے حضور رسالت مآب ﷺ کے منہاج ومزاج کی پیروی اور ان کے اسوئہ حسنہ کی اتباع کو لازمی قدر قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اسوئہ حسنہ کی مکمل اتباع اور آپ کے نقش قدم کی پیروی میں ہی دنیا اور آخرت کی یقینی کامیابی اور سر خروئی کا راز مضمر ہے، جواب شکوہ میں خدائی وعدے کی یاد دہانی کراتے ہوئے یوں نغمہ سر ا ہیں:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں کیا چیز ہے لوح وقلم تیرے ہیں
( اس مضمون کی تیاری میں اقبال اور محبت رسول، موٴلفہ ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی، مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۷۷ء سے بھرپور مدد لی گئی ہے۔للہ موٴلف کو جزائے خیر سے نوازے۔)