حالیہ الیکشن سے قبل بی جے پی کی رام بھگتی اور ملک کی موجودہ صورتحال

پورے ملک میں رام مندر کا معامہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، مدھیہ پردیش میں الیکشن سے ٹھیک دو روز قبل رام مندر کی تعمیر کا دباؤ بنانے کے لیے وشو ہندو پریشد والے دھرم سبھا کررہے ہیں جس کو بی جے پی کا بھر پور تعاون حاصل ہے۔ 

معاذ مدثر قاسمی

دوہزار انیس سے قبل ملک کے پانچ صوبے راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ،تلنگانہ ، اور میزوروم میں الیکشن ہورہے ہیں ، جن کے نتائج ایک ساتھ گیارہ دسمبر کو سامنے آئیں گے۔ مذکورہ پانچ صوبوں میں چھتیس گڑھ کے 72 سیٹوں پر دومرحلوں میں 12 اور 18 نومبر کو ووٹنگ ہوچکی۔ اس کے بعد 28 نومبر کو مدھیہ پردیش کے 230 سیٹوں پر اور میزوروم کے چالیس سیٹوں پر ایک مرحلے میں ووٹنگ ہوگی جبکہ راجستھان کی 200 اور تلنگانہ کے 119 سیٹوں پر 7 نومبر کو عوام اپنی رائے دہی کا استعمال کریں گے ۔

یوں تو تمام الیکشن سیاسی پارٹیوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے مگر مذکورہ پانچ صوبوں کے الیکشن کو ٹھیک دو ہزار انیس کے عام انتخابات سے قبل ہونے کی وجہ سے انتہائی اہم مانا جارہا ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے الیکشن کو مزید اہمیت دی جارہی ہے ، چونکہ یہ دونوں صوبے مرکز ی حکومت کے زیراقتدار ہے۔ مدھیہ پردیش میں پندرہ سالوں سے شیوراج چوہان کے زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے ، اور راجستھان کا حال یہ ہے کہ 1998 سے کوئی بھی پارٹی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ چھتیس گڑھ بھی اس معنی کر کے اہم ہے کہ یہاں پر بھی بی جے پی پندرہ سالوں سے اقتدار میں ہے ۔

ان تینوں صوبوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہےعوامی رجحانات بی جے پی کےخلاف نظر آرہے ہیں۔ چوں کہ مرکز میں بی جے پی زیراقتدار ہے اور عوام سے جھوٹے وعدوں اورجملہ بازیوں کے سہارے حکومت میں آئی تھی، مگر ساڑھے چار سالوں میں عوام نے دیکھ لیا کہ وعدے محض وعدے ہیں حقیقت سے ان کا دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ ساڑھے چار سالوں میں مرکزی حکومت کی مکمل ناکامی کی وجہ سے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اس طرح کے آثار نظر آرہے ہیں کہ ان کو زبردست عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑے اور ناکامی ان کے ہاتھ لگے۔

بی جے پی دو ہزار چودہ (۲۰۱۴؁ ) میں طرح طرح کے جھوٹے وعدے اور عجیب وغریب سنہرے خواب دکھلاکر حکومت میں آئی تھی اور پھر سلسلہ وار ملک کے تقریباً اکیس صوے اس کے زیر اقتدار آتے گئے ، اور کانگر یس مسلسل صوبائی الیکشن سے بے دخل ہوتی گئی اور اب صرف چار صوبوں میں کانگریس سمٹ کر رہ گئی۔ بی جے پی نے اپنے عروج پیہم سے خوش فہمی میں مبتلا ہوکر کانگریس مکت بھارت کا نعرہ بھی دے دیا تھا ، اور جس طرح سے کانگریس کئی صوبوں ے بے دخل ہوتی گئی ، اکثریت میں ہونے کے بعد بھی اپنی سست روی کی وجہ سے حکومت سازی میں ناکام ہوئی ، اس سے کچھ حد تک یہ خدشہ بھی ہونے لگا کہ ملک پر ستر سال حکومت کرنے والی یہ قدیم پارٹی اب شاید برائے نام رہ جائے گی۔ مگر کانگریس نے گجرات کے بعد کرناٹک میں کسی حد تک ہوشمندی کا ثبوت دیا اور کرناٹک میں اپنی ڈگماتی حکومت کو بچانے میں کامیاب ہوگئی اس سے کانگریس کی قیادت میں ایک طرح کی توانائی آگئی۔ اب جبکہ ان پانچ صوبوں میں الیکشن ہورہے ہیں تو بی جے پی جس کانگریس سے مکت بھارت کا نعرہ لگارہی تھی، راجستھان میں اثر و رسوخ رکھنے والے بی جے پی کے کئی بڑے نیتا اسی کانگریس کا دامن تھام چکے ہیں۔

جن وعدوں کے ذریعہ عوام کی حمایت حاصل کرکے یہ حکومت بر سر اقتدار آئی، وہ سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے، ان عرصوں میں صرف عوامی جذبات سے کھلواڑ کیا گیا، اقلیتی طبقوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیا گیا۔ کسے نہیں معلوم کے گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں ملک ترقی کے بجائے رو بزوال ہوتا چلا گیا، مہنگائی آسمان چھونے لگی ، جس پیٹرول کی قیمت کو لیکر سابقہ حکومت کو بی جے پی کے لیڈران کوسا کرتی تھی، اب بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت انتہائی کم ہونے کے باجود اس کی قیمت اسی طرح بڑھ رہی ہے۔

ظاہر سی بات ہے کب تک عوام حکمراں جماعت کے ذریعہ دکھلائے جانے والے خوش نما باغات کے ذریعہ لطف اندوز ہوتی رہے گی ، عوام کو تو روزگار اور ملازمت چاہیے، مگر حکمراں جماعت نے تو صرف خواب ہی دکھلانے کا کام کیا۔ اب جبکہ ملک کے پانچ صوبوں میں الیکشن ہورہے ہیں اور ان کو دو ہزار انیس ۲۰۱۹ کے عام انتخابات سے قبل فیصلہ کن مانا جارہا ہے ، اسی سے عوامی رجحان کا اندازہ سیاسی پارٹیاں لگاکر دو ہزار انیس کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے اور اسی سے پورے ملک میں عوامی رائے ہموار ہوگی۔

بی جے پی جسے محض اقتدار کی ہوس ہے کسی طرح ان صوبو ں میں اپنی شکست دیکھنا نہیں چاہتی خاص طور پر راجستھان ار مدھیہ پردیش میں ۔ ساڑھے چار سالوں کا نتیجہ تو عوام کےسامنے ہے۔ اس لئے اب بی جے پی کا آخری سہارا یہی مذہبی جذبات ہے۔ رام مندر ہی ان کا آخری میجک گیم ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں رام مندر کے ساتھ ساتھ ترقی کے نام پراس نے ووٹ مانگا تھا۔ اب بی جے پی کے پاس محض رام مندر ہی کا مدعا رہ گیا ہے۔ ان کے خیال میں اسی سے ان کی نیا پار لگے گی۔ اسی لیے پھر سےا س مدعے کو ہوا دی جارہی ہے پورے ملک میں رام مندر کا معامہ موضوع بحث بنا ہواہے، مدھیہ پردیش میں الیکشن سے ٹھیک دو روز قبل رام مندر کی تعمیر کا دباؤ بنانے کے لیے وشو ہندو پریشد والےپچیس نومبرکو دھرم سبھا کررہے ہیں جس کو بی جے پی کا بھر پور تعاون حاصل ہےاور بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع ہونے کی اپیل کررہے ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ اس میں پانچ لاکھ سے زائد رام بھکت کے پہنچنے کا امکان ہے۔ اور دوسری طرف راجستھان میں سات دسمبر کو الیکشن کی تاریخ ہے اور چھ دسمبر کو جس تاریخ کو بابری مسجد کی شہادت کا افسوس ناک سانحہ پیش آیا، رام مندر کی سنگ بنیاد رکھنے کی صدا لگائی جارہی ہے ۔

یہ سارا کھیل محض اکثری طبقوں کے جذبات کو متأثر کرکے ووٹ بٹورنے کا ایک کامیاب حربہ ہے۔ یہ ہمیشہ سے بی جے پی کی ایک چال رہی ہے کہ ہر الیکشن سے قبل اس طرح کے حساس موضوع کو چھیڑدیا جاتا ہے ۔ رام مندر کا معاملہ فی الحال عدالت عظمی میں چل رہا ہے ، جب سے سپریم کورٹ نے اس پر شنوائی جنوری تک ملتوی کیا ہے بی جے پی والوں کی طرف سے عدالت عظمی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے ، عدالت نے معاملے کی حساسیت کو دیکھ کر تدبیرا اس کو جنوری تک ملتوی کیا، تاکہ کو ئی سیاسی پارٹی اس کے ذریعہ اپنی روٹی نہ سیک سکے ۔ اب المیہ یہ ہے کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر حکمراں جماعت کے لیڈران کے زریعہ بے تکے بیانات دیے جارہے ہیں۔ قانون کی بالادستی کا یقین دلانے والے اب کھلے عام قانون کا منہ چڑھارہے ہیں ، تاکہ اکثریتی طبقہ کے ذہن کو متأثر کر کے ان کا ووٹ اپنے تھیلے میں ڈالا جائے ۔

حالیہ الیکشن کے پیش نظر ملک میں رام مندر کے معاملہ پر قصداً تناؤ کی شکل پیدا کی جارہی ہے۔ گیارہ دسمبر کی تاریخ کو پانچ صوبوں کے نتائج آنے کے بعد ہی پتہ چلے گاکہ رام مندر کے نام پر فرقہ پرستی پھیلانے والے اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں، آیا عوام ان کے فرقہ پرستی کی جال میں پھنس جاتی ہے یا حقیقت کو سامنے رکھ کر ، جمہوریت سے کھلواڑ کرنے والوں کی چال کوسمجھ کر داشمندی کا ثبوت دیتی ہے ۔