مسعود جاوید
Ignorance of learned men
پڑهے لکھے لوگوں کی جہالت:
پڑهے لکھے لوگوں کے بارے میں عام لوگوں کی رائے یہی ہوتی ہے کہ وہ طبقہ سوجھ بوجھ والا ہوتا ہے زمانے کے نشیب و فراز اور اپنے ارد گرد کے حقیقی احوال اس کی واقفیت اوروں کی بہ نسبت بہتر ہوتی ہے. اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسے اپنے حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کا علم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ملک کا ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بنتا ہے۔
افسوس اس ملک میں جن سبجکٹس کو پڑھنے اور پڑھانے کی سخت ضرورت ہے اس کا انتظام عصری درسگاہوں میں ہے اور نا ہی دینی اداروں/مدارس میں. وہ دو سبجکٹ ہیں :
1- دستور ہند کے منتخب ابواب Selected
Chapters of the Constitution of India
قانون اور دستور کی اہمیت, افادیت اور ضرورت سب سے زیادہ اقلیتوں اور سماج کے کمزور طبقوں کو ہے. ان طبقوں کے ہاتھوں میں سب سے بڑا ہتھیار دستور ہند ہے. دستور ہند کا دیباچہ اقلیتوں کو ازبر یاد ہونی چاہئے بلکہ اس کی کاپی / فوٹو ہر ایک کے موبائل میں محفوظ رہنا چاہئے اس سے انسان ذہنی طور پر اپنے اندر طاقت محسوس کرے گا اور زہرافشاں ماحول اور ایک مخصوص طبقہ اور میڈیا کے ذریعہ چھیڑی گئی نفسیاتی جنگ کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہو گا. عربی کا مقولہ ہے : القانون لا یحمی المغفلين. یعنی قانون اپنے حقوق و ذمہ داریوں سے غافل اشخاص کی حفاظت نہیں کرتا۔
صحافیوں کے بارے میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی بنیادی ڈیوٹی ہے کہ جمہوریت کے تین ستون ؛ 1- legislative
2- executive, 3- judiciary
میں کچھ گڑ بڑی ہو اس کی گرفت کرے اور عوام کو اس سے آگاہ کرے. اسی لئے صحافت کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے. مگر افسوس اس پڑهے لکھے طبقہ نے اپنے ذاتی مفاد میں اس پیشہ کا وقار نیلام کردیا اور ” ظل سرکار کی ہوس میں ان میں سے بیشتر نے اپنی حیثیت جسم فروش عورت کی بنالی ہے. ان دنوں بابری مسجد اور دیگر مسائل کے تعلق سے دستور ہند کی دھجیاں اڑانے کی باتیں کرنے پر اور سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلہ کی حکم عدولی کی دھمکی پر ان غیر ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور ان پر ڈبیٹ کرنے کی بجائے یا تو خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں یا ان کو کسی نہ کسی اینگل سے ہیرو بنا رہے ہیں. یہی ہے ان پڑهے لکھے لوگوں کی جہالت، اگر کوئی ذمہ دار شخص جس نے اعلیٰ تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی میں حاصل کی ہو اور ایک عرصہ تک امریکہ میں مقیم رہا ہو وہ محض ہندو ووٹ کو گول بند کرنے کی خاطر لنچنگ کے مجرموں کی ضمانت کی پیروی کرے یا ضمانت پر رہائی ہونے والوں کا استقبال کرے اور پھولوں کا ہار پہنائے تو ایسا نہیں لگتا کہ تعلیم اب محض پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے اخلاقیات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ؟
1- لال قلعہ کی عمارت میں لگے پتھروں کا رنگ چونکہ گیروا ہے جو کہ ہندوؤں کا رنگ ہے اس لئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمارت ہندوؤں کی بنائی ہوئی ہے جسے مغلوں نے قبضہ کر لیا تھا. اگر مسلمانوں نے بنائی ہوتی تو اس کا رنگ ہرا ہوتا !
2- جامع مسجد منہدم کرو اگر اس کے نیچے مورتیاں نہ نکلیں تو پھانسی پر لٹکا دینا۔
3- تاج محل تیجو دیوی کا محل تھا جسے شاہجہاں نے قبضہ کر لیا تھا ۔
یہ اور اس قبیل کی مختلف بے بنیاد باتیں پھیلائی جارہی ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو غصہ دلانا اور انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ تم بے وقعت ہو اس ملک میں ہم جو چاہیں گے وہی ہوگا. ہم تاریخ دستور قانون سب کچھ بدل دیں گے. اس لئے یہ ذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے جس سے خوفزدہ ہونے یا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، ہمارے اسلاف کے کارناموں کو مٹانے کی کوشش کی جائے یا جامع مسجد کے نیچے بت ہونے کا دعویٰ یا لال قلعہ کی تعمیر بهگوا رنگ کے پتھروں سے ہونے کو مغلوں کی تعمیر کردہ عمارت نہ ہونے کی دلیل یہ سب محض بکواس ہے اسے غیر مسلموں کا سنجیدہ طبقہ بھی مانتا ہے کہ یہ سب انتخابات جیتنے کے ہتھکنڈے ہیں۔
دستور کی حفاظت میں ہماری حفاظت ہے اس لئے ہمیں برادران وطن خاص طور پر کمزور طبقوں کے ساتھ مل کر اس کی حفاظت اور اس پر عمل درآمد کی کوشش کرنی چاہئے۔
دوسرا اہم سبجکٹ دسویں کلاس تک و syllabus کا لازمی حصہ ہو وہ ہے :
2- ہندستانی ادیان و ثقافت کا مختصر تعارف
Basics of Indian Religions & Culture
اس کی تعلیم سے ایک تو یہ کہ مسلمان اپنے مذہب کے سلسلہ میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا دوسری بات یہ کہ برادران وطن کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں گے اس لئے کہ اسے معلوم رہے گا کہ کوئی بھی مذہب ایک دوسرے سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا، اخلاقیات moral education کے نام سے اسے curriculum کا حصہ بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔






