زبان جج کی سوچ آر ایس ایس کی

خبر درخبر(582)
شمس تبریز قاسمی
میزروم کی نئی حکومت نے عیسائی رسم ورواج کے مطابق حلف برداری کی تقریب منعقد کی ۔ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب حلف برداری کی پوری تقریب ایک خاص مذہب کے مطابق منعقد کی گئی ہے ۔آئینی منصب پر فائز ہونے کیلئے اپنے مذہب کے مطابق حلف لینا ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔کئی ایسے مسلمان ہیں جو قرآن کریم کا حلف لیتے ہیں ،دیگر مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کی سب سے مقدس کتاب کا حلف لیتے ہیں لیکن پوری تقریب ایک خاص مذہب کے مطابق نہیں ہوتی ہے یہ امتیاز صرف میزرو نیشنل فرنٹ اور اس کے سربراہ زرتھانگام کو حاصل ہے جو اب وزیر اعلی بن چکے ہیں ۔تصور کیئجے یہ سب کسی مسلمان نے کیا ہوتا۔یا کسی بھی سیاسی پارٹی نے اسلامی طریقے کے مطابق حلف برداری کی تقریب منعقد کی ہوتی تو اس وقت میڈیا میں کیا بحث چلتی ،اخبارات کی سرخیاں کیا ہوتی ہے لیکن عیسائیوں نے یہ کیا ہے اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
دوسری طرف میگھالیہ ہائی کورٹ کے جج آر ایس سین صاحب کو لگ رہاہے کہ مسلمان ہندوستان کو اسلامی ریاست بنارہے ہیں ۔ان کی خواہش کے اسے سیکولر ملک ہونے کے بجائے ہندو راشٹرہونا چاہیئے اس لئے اس لئے انہوں نے ایک ایسے فیصلے میں یہ سب باتیں کہہ دی جس کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔جج سین کے کا کہناہے کہ ”تقسیم کے وقت ہی ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جانا چاہیے تھا لیکن یہ جمہوری ملک بنا رہا۔‘انہوں نے یہ بھی کہاکہ میں صاف کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہ کرے۔ اگر یہ اسلامی ملک ہو گیا تو ہندوستان اور دنیا میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ مودی حکومت کو اس کے لیے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔“
جسٹس ایس آر سین جس کیس کی سماعت کر رہے تھے اس کا تعلق ہندو راشٹر یا اسلامی ملک سے نہیں تھا اس لیے ان کے بیان پرحیران ہونا یقینی ہے۔ وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ سے منع کیے جانے پر امن رانا نامی ایک شخص کے ذریعہ داخل عرضی پر سماعت کر رہے تھے۔ اس کیس پر انھوں نے 37 صفحات پر مبنی فیصلہ سنایا جس کی کاپی گزشتہ منگل کو دستیاب ہوئی۔ اس کیس پر فیصلہ سنائے جانے کے بعد انھوں نے اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے پیش رفت کرنے کی گزارش کی۔ان کا مزید کہناتھاکہ ”مجھے پورا بھروسہ ہے کہ مودی حکومت معاملے کی سنگینی کو سمجھے گی اور ضروری قدم اٹھائے گی اور ہماری وزیر اعلیٰ ممتا جی ملکی مفاد میں ہر طرح سے اس کی حمایت کریں گی۔“
جسٹس ایس  آر سین نے یہ بیان 13 دسمبر کو بغیر کسی سیاق وسباق کے دیا جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتاہے کہ یہ بیان کسی کے اشارے پر تھا اور جج صاحب کو یہاں تک پہونچانے میں کسی تنظیم کا خصوصی کردار ہے ۔11 دسمبر کو مدھیہ پردیش ،راجستھان ،چھتیس گڑھ ،تلنگانہ اور میزرو میں ہوئے انتخابات کا نتیجہ آیاتھا جس میں سے کسی بھی ایک ریاست میں بی جے پی کو جیت نہیں مل سکی ۔گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بی جے پی کی یہ سب سے بڑی شکست تھی اس لئے نارتھ ایسٹ کے ایک جج کے ذریعہ یہ بیان دلوایاگیا تاکہ بحث کا رخ دوسری طرف ہوجائے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آر ایس ایس تمام آئینی اداروں میں پہونچ چکی ہے ،ہرجگہ اس کے تربیت یافتہ ہیں ،ہمارے پاس آر ایس ایس سے مقابلہ کیلئے کیا حکمت عملی ہے ۔ہم کتنے لوگوں کوایسے آئینی اداروں میں بھیج رہے ہیں ۔جج صاحب نے جو کہاہے وہ آر ایس ایس کا منصوبہ ہے اور اسی پر وہ اپنے قیام کے بعد سے کام کررہی ہے جسے الفاظ کا عملی جامہ جج صاحب نے پہنایاہے جسے یوں کہ سکتے ہیں کہ زبان جج کی سو چ آر ایس ایس کی ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE