ان سب کے باوجود ہم حالات سے مایوس نہیں ہیں ۔میڈیا کے میدان میں ہم نے جب قدم رکھ لیاہے تو ہماری پوری کوشش یہی ہوگی کہ یہ سلسلہ جاری رہے ۔ میڈیا کے ذریعہ سماج اور قوم کی خدمت جذبہ برقرار رہے ۔ مجھے نہ تو اپنے مستقبل کا پتہ ہے اور نہ معلوم ہے کہ آگے کیا ہوگا ۔ہماری زندگی کن راہوں سے گزرے گی ۔ بس ایک شوق ،جذبہ اور لگن ہے جس نے شب وروز اسی میں مصروف کردیاہے ۔صبح نو بجے سے رات کے دو بجے تک کا وقت بلاناغہ ملت ٹائمز کی نذر ہوجاتا ہے ۔
خبر در خبر (583)
شمس تبریزقاسمی
ملت ٹائمز ہندی کی ویب سائٹ تیار ہوچکی ہے ۔خبروں کو اپڈیٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے تاہم باضابطہ آغاز ابھی باقی ہے ۔ ممکن ہے جنوری 2019 میں کسی پروگرام کے دورن اس کا افتتاح عمل میں آجائے ۔
ملت ٹائمز کا آغاز جنوری 2016 میں ہوا تھا لیکن اس وقت یہ صرف اردوزبان میں ایک ویب سائٹ تھی ۔اس کے بعد انگلش میں شروعا ت ہوئی ۔جولائی 2017 میں یوٹیوب چینل کا آغاز عمل میں آیا ۔ اس مختصر سے عرصے میں ملت ٹائمز کو الحمد للہ بے پناہ کامیابی ملی ہے ۔قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہونچ گئی ہے۔ یومیہ ملت ٹائمز کے قارئین کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے ، ویب سائٹ کے علاوہ فیس بک ،یوٹیوب ،ٹوئٹر ،انسٹاگرام اور وہاٹس ایپ کے ذریعہ یومیہ ہم ڈھائی لاکھ لوگوں تک پہونچ رہے ہیں ۔کسی ویب سائٹ کیلئے یہ غیر معمولی کامیابی ہے ،کئی دن ایسے بھی آئے ہیں جب ایک دن میں تین لاکھ سے زائد ہٹس ملے ہیں ۔ان سب کے باوجود ملت ٹائمز کے درمند اور ملت کے بہی خواہ قارئین کی شکایت تھی کہ اردو میںیہ کوششیں ناکافی ہیںجب تک ہندی ورژن کی شروعات نہیں ہوگی صحیح نتیجہ سامنے نہیں آئے گا اس لئے ملت ٹائمز کے ہندی ورزن کی شروعات کی جائے تاہم بجٹ کی قلت اور اسباب کی عدم فراہمی کے سبب ہم اسے ٹالٹے رہے ۔اس دوران ہندی زبان میں کچھ اہم خبروں کو ملت ٹائمز کی انگلش سائٹ میں شائع کرنے پر اکتفا کرتے رہے ۔
اکتوبر2018 میں سیتامڑھی فساد اور 80 سالہ زین الانصاری کی ماب لنچگ کی خبر ملت ٹائمز کے یوٹیوب اور فیس بک پر ویڈیوکی شکل میں اپلوڈ ہوئی تھی ۔ہندی زبان میں ایک رپوٹ انگریزی سائٹ پر بھی شائع کی گئی تھی ۔یہ رپوٹ ملکی و عالمی میڈیا پر اثر انداز ہوئی ۔دی کوئنٹ اور دی وائر جیسی اہم سائٹ کے بعد انڈین ایکسپریس ،بی بی سی اور این ڈی ٹی وی جیسے میڈیا ہاؤسز نے اس معاملے کو کوریج کیا ۔اس واقعہ کے بعد ملت ٹائمز سے وابستہ ہمارے دوستوں نے اصرار کرتے ہوئے کہاکہ اب ہندی ورژن کی شروعات ناگزیر اور ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ گیاہے ۔اردو زبان میں ہماری جو محنت ہورہی ہے اس کا بیس فیصد ہم اگر ہندی زبان میں کرلیتے ہیں تو اردو کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نتیجہ سامنے آئے گا اور ہماری بیشتر خبریں ملکی و عالمی میڈیا کے ساتھ سماج پر اثر انداز ہوں گی ۔
بالآخر ہندی کیلئے علاحدہ ویب سائٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ چند دوستوں اور صاحب خیر سے ہم نے سائٹ کے اخراجات کیلئے تعاون کی اپیل کی جس پر انہوں نے لبیک کہا اور الحمد للہ سائٹ اب تیار ہوچکی ہے ۔ خبروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے تاہم اسے مزید فعال اور موثر بنانے کیلئے مستقل دو ایسے صحافیوں کی ضرورت ہے جو آفس میں مکمل وقت دیں اور ہندی ورزن کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ان کیلئے تنخواہ اور دیگر وسائل کا انتظام بھی ضروری ہوگا ۔
میڈیا آج کی اہم ضرورت ہے ۔ ملت ٹائمز کے ذریعہ ہماری تمام تر کوششوں کا واحد مقصد ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے سماج میں بیداری لانا ،مسلمانوں کے مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور اقلیتوں کے ان ایشوز کو موضوع بحث بناناہے جسے مین اسٹریم میڈیا میں نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ٹی وی چینل کیلئے خطیر رقم کی ضرورت ہے جس کا انتظام ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ،پرنٹ میڈیا کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے ایسے میں ایک بہتر راستہ ویب میڈیا کا ہے جہاں سوشل میڈیا کے ذریعہ باآسانی لوگوں تک رسائی ہوجاتی ہے ۔ہندوستان سمیت دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز بھی اب سوشل میڈیا کو اپنارہے ہیں ۔ہر ٹی وی چینل اور بڑے اخبارت میں بڑے پیمانے پر ویب میڈیا کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ یوں کہئے کہ اس پر بھی انہیں لوگوں کا قبضہ ہوگیاہے۔
ایک زمانہ ایسا تھا جب میڈیا اور تجارت کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا ۔صحافت کی حیثیت ایک تحریک اور جدوجہد کی تھی ۔لیکن اب یہ ایک پسندیدہ بزنس ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ بزنس کو پیش نظر رکھنے والا کوئی بھی میڈیا ہاؤس اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوپاتاہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ملت ٹائمز بھی اقتصادی اور تجارتی نقطہ نظر سے قائم کیاگیا ہے جبکہ سچائی اس سے کوسوں دور ہے ۔ ملت ٹائمز کو قریب سے جاننے والوں کو حقیقت کا بخوبی انداز ہ ہے ۔حالات تک یہاں پہونچ جاتے ہیں کہ کبھی کبھی کئی ماہ تک ہمارے ساتھ کام کرنے والے دوستوں کو تنخواہ نہیں مل پاتی ہے ہر چند کہ ان کی یہ تنخواہ بھی بہت معمولی ہے ،بعض مرتبہ بہت خواہش ہونے کے باوجود ہم اپنے رپوٹرس اور نمائندوں کو دوسری جگہوں پر انٹرویوز لینے اور پروگرام کور کرنے کیلئے نہیں بھیج پاتے ہیں کیوں کہ آمد و رفت کا خرچ نہیں ہوتاہے ۔آج کل یوٹیوب چلانے والوں کو ایک معمولی رقم گوگل کے اشتہارات سے بھی آجاتی ہے لیکن ملت ٹائمز کے ساتھ یہ بھی معاملہ نہیں ہے ۔ شروع میں ملت ٹائمز مونٹائزڈ تھا تاہم چند ماہ بعد گوگل نے اسے مسترد کردیا ہے ۔نوٹس لیٹر میں بتایا گیا کہ آپ کے چینل کو بہت زیادہ رپوٹ کیا گیا ہے اس لئے نظر ثانی کیلئے اشتہار بند کیا جارہا ہے ۔اس کے بعد یوٹیوب نے ہمار کئی ویڈیو زکو ڈیلیٹ کردیاجس میں میانمار ،بہار فساد ، زین الانصاری کی لنچنگ سمیت کئی اہم ویڈیوز شامل ہیں ۔ ہر ممکن کوشش اور تمام شرائط کے باوجود یوٹیوب دورباہ مونٹائزیشن کیلئے تصدیق نہیں کررہا ہے ۔ ویڈیو کا پرومشن تک اس نے روک رکھا ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود ہم حالات سے مایوس نہیں ہیں ۔ میڈیا کے میدان میں ہم نے جب قدم رکھ لیاہے تو ہماری پوری کوشش یہی ہوگی کہ یہ سلسلہ جاری رہے ۔ میڈیا کے ذریعہ سماج اور قوم کی خدمت جذبہ برقرار رہے ۔ مجھے نہ تو اپنے مستقبل کا پتہ ہے اور نہ معلوم ہے کہ آگے کیا ہوگا ۔ہماری زندگی کن راہوں سے گزرے گی ۔ بس ایک شوق ،جذبہ اور لگن ہے جس نے شب و روز اسی میں مصروف کردیا ہے ۔صبح نو بجے سے رات کے دو بجے تک کا وقت بلاناغہ ملت ٹائمز کی نذر ہوجاتا ہے ۔
ہمار ا عزم ہے کہ ملت ٹائمز کو ہم ذریعہ معاش نہیں بنائیں گے ۔لیکن جولوگ ملت ٹائمز کیلئے شب وروز کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔ مستقل کام کررہے ہیں ان کی ضروریات کی تکمیل ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ ہم تہ دل سے شکر گزار ہیں ان تمام کرم فرماؤں اور مخلص دوستوں کے جو اس سفر میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں اور موقع بہ موقع ملت ٹائمز کا مالی تعاون کرتے ہیں ۔
ملت ٹائمز کے قیام کا اولین مقصد مسلمانوں کی ترجمانی اور اقلیتوں کے ان مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کرناہے جسے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعہ چھپایا جاتا ہے اور ہماری یہ پوری کوشش جاری رہے گی ۔ اردو اور انگلش کے ساتھ اب ہندی ایڈیشن کی بھی شروعات ہوگئی ہے جس سے بڑی تعداد تک بآسانی ہماری رسائی ہوجائے گی۔ یوٹیوب چینل اور فیس بک پر بھی ملت ٹائمز کے ناظرین اور قارئین کی تعداد قابل ذکر ہے ۔برسبیل تذکرہ یہ ضروری ہے کہ ہندی ایڈیشن کی پالیسی اردو سے کچھ مختلف ہوگی ۔یہاں ہم صرف ان ایشوز پر توجہ دیں گے جن کا تعلق حکومت سے ہوگا جبکہ اردو میں ہم مسلمانوں کے ان مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جن کا تعلق مسلم قیادت اور ملی وسماجی تنظیموں سے ہوتاہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسلم قیادت اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ۔مسلم سماج میں بیداری پیدا ہوا اور مسلم عوام کا اپنے قائدین کے ساتھ رابطہ ہموار رہے ۔
ملت ٹائمز پوری ملت اسلامیہ اور سماج کا ہے۔ اس پر کسی کی اجارہ داری اور ملکیت نہیں ہے ۔ اس کا اول وآخری مقصد وہی ہے جو اوپر کی سطروں میں بتایاگیا ۔خوشی اس بات کی ہے اس مدت میں ہم لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میڈیا پر کسی ایک قوم اور طبقہ کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ہم جیسے لوگ بھی اس میدان میں کام کرسکتے ہیں اور اپنی پالیسی کے مطابق ایک مضبوط میڈیا ہاؤس کی تشکیل کر سکتے ہیں ۔ الحمد للہ ہمارے پاس افراد ہیں ۔ باصلاحیت نوجوان صحافیوں کی ایک ٹیم بھی ہے جن سے کام لینے کیلئے کچھ بنیادی اور ضروری وسائل درکار ہیں اگر آج ہم مطلوبہ وسائل فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر کل ہوکر ہماری قوم کے یہ کامیاب افراد زی نیوز اور آج تک جیسے میڈیا ہاؤسز کا حصہ بن جائیں گے جہاں انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی چینل کی پالیسی کو اپنانا ہوگا۔
ہم شکر گزار ہیں اپنے کارکنان کے، رضاکارنہ طور پر خدمات انجام دینے والے نمائندوں کے ، مخلص معاونین کے۔ لیگل امداد کرنے والے وکلاء اور دنیا بھر میں موجود اپنے محبوب قارئین اور ناظرین کے جنہوں نے ملت ٹائمز کو پذیرائی بخشی ہے ۔جن کی عنایتوں اور نوازشوں کی بدولت ملت ٹائمز نے یہاں تک کا سفر طے کرلیاہے اور انشاءاللہ آئندہ بھی یہ سفر جاری رہے گا ۔
ملت ٹائمز کے سلسلے میں آپ کا فیڈ بیک بھی ہمیں مطلوب ہے کہ ملت ٹائمز کی کوششیں کہاں تک کامیاب ہے۔ کہاں خامیاں ہیں۔ مزید کن ایشوز پر کام کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اسے کیسے مزید موثر اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے ۔نیز ملت ٹائمز کے اردو ، ہندی اور انگلش تینوں ورژن کیلئے ملک بھر سے ہمیں ایسے نمائندوں کی بھی ضرورت ہے جو رضا کارانہ طور خدمات انجا م دینے کا جذبہ رکھتے ہوں ۔آپ سے ایک درخواست یہ بھی ہے کہ براہ راست ملت ٹائمز ہندی کی ویب سائٹ پر جائیں ،فیس بک بک پر اس کا پیج لائک کریں ،دوستوں کو انوائٹ کریں ،ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر بھی فلو کریں ۔ آپ کا یہ تعاون ملت ٹائمز کیلئے سب سے بیش قیمت اور اہم ہے ۔
یہ تحریر پڑھنے کیلئے تہ دل سے شکریہ
براہ کرم دوسروں سے بھی شیئر کیجئے
شمس تبریز قاسمی
ملت ٹائمز
stqasmi@gmail.com
Mobile:8802175924