غزہ( آئی این ایس انڈیا )
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے گذشتہ دو سال سے غزہ کی پٹی کے عوام کے معاشی قتل عام کے بعد جب ان کا جی نہ بھرا تو انہوں نے شہداءکے اہل خانہ، زخمیوں اور اسیران کے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے ماہانہ بنیادوں پر انہیں جاری ہونے والے وظائف سے بھی محروم کردیا۔فلسطینی اتھارٹی کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں عید ابو صلاح بھی شامل ہیں۔ وہ ایک ہاتھ سے محروم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں معذور فلسطینیوں میں شامل کیا گیا اور ان کے خاندان کی کفالت کے لیے فلسطینی حکومت ماہانہ وظیفہ جاری کرتی رہی ہے۔عید ابو صلاح وہ پہلے فلسطینی نہیں جنہیں فلسطینی اتھارٹی نے معاشی انتقام کا نشانہ بنایا گیا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی معاشی انتقام اور غیرانسانی اور غیراخلاقی کارروائیوں سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ بالواسطہ طورپر لاکھوں افراد صدر عباس کی انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔عید ابو صلاح کا تعلق غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے بیت حانون سے ہے۔ عید کا کہناہے کہ میرے والد نے سات سال تک اسرائیلی زندانوں میں قید رہے مگر ہمیں اس دوران فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ایک’ دھیلا‘ بھی نہیں دیا گیا۔عید کے بھائی غسان ابو صلاح بھی صہیونی زندانوں میں قید ہیں اور مسلسل 17 سال قید کے تحت پابند سلاسل ہیں۔جب کہ ان کے ایک بھائی سعدی صلاح صہیونی فوج کے حملے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں مگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انہیں کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔عید نے ’فیس بک‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ میرے چچا سابق اسیر ہیں اور انہیں گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے رہا ہونے والے فلسطینیوں میں شامل کیا گیا تھا۔ جب تک وہ اسیر رہے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ان کے خاندان کوکچھ نہیں دیا گیا۔عید کا کہنا ہے کہ میرے تین قریب عزیز سابق اسیر اور زخمی ہوئے مگر انہیں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کسی قسم کا مالی تعاون فراہم نہیںکیا گیا۔عید ابو صلاح غزہ کے واحد فلسطینی نہیں جو فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کی انتقامی سیاست کا شکا ہوئے ہیں بلکہ صدر عباس نے غزہ کے چھ ہزار خاندانوں کے چولہے بند کردیئے او رہزاروں بچوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔عید کی طرح سامی العقاد بھی ایک ایسے ہی سرکاری ملازم ہیں جنہیں ان کے ماہانہ مشاہرے سے محروم کیا گیا۔ غزہ میں ملازمین یونین کے سربراہ عارف ابو جراد نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے اب تک 150 سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند کی ہیں۔ ان میں سے بعض غزہ میں الازھر دینی ادارے کے ملازمین اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ انہیں سنہ 2005کے بعد سے ملازمتوں سے نکالا گیا۔ انہیں ملازمت سے محروم کرنے سے قبل کئی کئی ماہ تک جھوٹی تسلیاں دی جاتی رہیں جب کہ بعض کو 12 ماہ کے بعد بتایا گیا کہ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح متاثرین کی تعداد ہزاروں میںبنتی ہے۔ابو جراد نے مزید کہا کہ سرکاری ملازمین، شہدا کے اہل خانہ، اسیران کے خاندانوں اور زخمیوں کی کفالت سے ہاتھ کھینچنا ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ خان یونس کے ایک بے روزگار نوجوان نے فلسطینی اتھارٹی کے معاشی حملے کے بعد خود سوزی کی کوشش کی تھی۔انہوںنے فلسطینی اسیران، شہداءکے ورثاءاور سرجاری ملازمین کے معاشی حقوق پرحملے کی ذمہ داری وزیر اعظم رامی الحمد اللہ اور وزیرخزانہ شکری بشارہ پرعائد کی۔مقامی فلسطینی ذرائع کے مطابق جنوری 2019 سے اب تک 5034 ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔ ان میں سے 1719 سول ملازمین ہیں۔ 1512 فوجی، 1700 اسیران اور زخمی شامل ہیں جنہیں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور اسلامی جہاد کے ساتھ تعلق کے الزام میں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔