ڈاکٹر مشتاق احمد
بہار اسکول اکزامینیسن بورڈ امتحانات کے نتائج کے شائع ہوتے ہی ایک بار پھر بہار کو شرمسار ہونا پڑا۔ یوں تو نقل نویسی کے حوالے سے گزشتہ سال بھی ریاست کی شبیہ مسخ ہوئی تھی لیکن اس بار کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ اگرچہ قومی میڈیا نے تو صرف ان طلبا کا ہی انٹر ویوعام کیا ہے جو بارہویں درجہ میں ٹاپ ٹین میں شامل ہیں، ورنہ حقیقت تو کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔ واضح ہوکہ بہار اسکول اکزامینیسن بورڈ ریاست کے لاکھوں طلبا کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں کیوں کہ انٹر میڈیٹ اور میٹرک کے امتحانات لینے کی ذمہ داری اسی بورڈ کے سر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار امتحانات کے نتائج متنازع ہوئے ہیں، پہلے بھی بورڈ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے کچھ اس طرح کی بدعنوانیاں اجاگر ہورہی ہیں جن سے پوری ریاست کی تعلیمی تصویر ہی دھندلی ہوگئی ہے۔ بالخصوص اس سال آرٹس انٹرمیڈیٹ کی ریاستی سطح پر ٹاپ کرنے والی طالبہ روبی رائے نے تو ریاست کے تعلیمی ڈانچے پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ واضح ہوکہ بشن رائے کالج، حاجی پور(ویشالی) کی طالبہ کے ٹاپ ہونے کی خبر اخباروں میں شائع ہوئی اور چہار جانب سے اسے مبارکبادیاں بھی دی جانے لگیں کہ ریاست میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں اچھے نتائج دے رہی ہیں۔ سیاسی گلیاروں سے بھی یہ آواز آنے لگی تھی کہ موجودہ حکومت کے دور میں لڑکیوں کی تعلیمی شرح میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کے اندر صلاحیت بھی بڑھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی سطح پر بھی ہماری بچیاں لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ سی بی ایس سی، آئی سی ایس بورڈ اور دیگر ریاستی بورڈوں کے امتحانات میں بھی لڑکیوں کا فیصد نہ صرف بڑھا ہے بلکہ اسے اولیت بھی حاصل رہی ہے۔ حتی کہ اس سال آئی اے ایس کے قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحان میں بھی لڑکی کو ہی اولیت حاصل رہی ہے۔ بہرکیف یہ ہمارے لئے قابل اطمینان ہے کہ ہماری لڑکیاں تعلیمی شعبہ میں اپنی بہتر صلاحیت کا مظاہرہ کررہی ہیں لیکن بہار انٹر میڈیٹ کے امتحان میں روبی رائے کا ٹاپ ہونا اپنے آپ میں ایک معمہ بن گیا ہے۔ واضح ہوکہ ایک ٹی وی چینل کے ذریعہ روبی رائے کا انٹرویو پیش کیا گیااور اس میں اس کا جو مایوس کن مظاہرہ سامنے آیا اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وہ قطعی ٹاپ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے ٹاپ ہونے میں کہیں نہ کہیں بدعنوانی کا بڑا ہاتھ ہے، کیوں کہ روبی رائے نے جس طرح پالیٹیکل سائنس کو ’پروڈیگل سائنس‘ کہا اور اسے خانہ داری کا علم قرار دیا، اس سے تو یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ اس نے کبھی اپنا نصاب تک نہیں دیکھا، ورنہ وہ اس طرح کا گمراہ کن جواب نہیں دیتی ۔اسی کالج کے سائنس کے طالب علم سوربھ نے بھی ٹاپ کیا ہے لیکن وہ ذرائع ابلاغ کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ دال میں کالا ضرور ہے۔ اگرچہ بہار اسکول اکزامینیسن بورڈ نے ٹاپ ٹین کے تمام طلبا کا دوبارہ انٹرویو کے ذریعہ ان کی صلاحیت کا پتہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور مورخہ 3 جون کو بورڈ آفس میں ہی اکسپرٹ ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری کیا ہے لیکن ذرائع ابلاغ کی خبروں سے یہ اطلاع مل رہی ہے کہ بیشتر طلبا اس اکسپرٹ کمیٹی کے روبرو ہونے سے کترا رہے ہیں۔ اگرچہ بورڈ نے ایک اطلاع عام جاری کر کے یہ واضح کردیا ہے کہ جن طلبا کو اکسپرٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے اگر وہ حاضر نہیں ہوتے ہیں تو ان کے متعلق کوئی بھی فیصلہ لینے میں بورڈ خود مختار ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اکسپرٹ کمیٹی کے فیصلے کیا گل کھلاتے ہیں۔
بہر کیف، اس میرٹ گھوٹالے نے قومی سطح پر بہار کے ان ذہین طلبا کے لئے ایک اذیت ناک ماحول پیدا کردیا ہے جو اپنی صلاحیت کی بدولت اچھے نمبرات حاصل کیے ہیں مگر روبی رائے کا انٹرویو جس طرح ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا میں وائرل ہوا ہے اس سے بہار کے طلبا کی کڑکڑی ہوئی ہے۔ ریاست سے باہر پڑھنے والے طلبا کے ہم درجہ انہیں بطور مذاق ہی سہی لیکن یہ کہنے لگے ہیں کہ بہار میں ٹاپ کرنا بہت آسان ہے۔ چونکہ میرا تعلق بھی درس وتدریس سے ہے اس لئے میں اس حقیقت سے بہرحال واقف ہوں کہ بہار کے ان طلبا کے ساتھ کس قدر ناانصافیاں ہوتی ہیں جو حقیقی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ریاست میں نہ صرف امتحان کا نظام لچر ہوگیا ہے بلکہ کاپی جانچ بھی محض خانہ پور ی ہوکر رہ گئی ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایسے ممتحن بھی انٹر میڈیٹ کونسل کے ذریعہ بحال کیے جاتے ہیں جو خود اپنے موضوع سے نہ صرف ناواقف ہوتے ہیں بلکہ اس موضوع کا نام بھی درست نہیں لکھ سکتے ۔ بھلا وہ کاپیوں کی جانچ کیسے کرسکتے ہیں مگر یہ گورکھ دھندہ ایک دہائی سے چل رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج قومی سطح پر بہار کا تعلیمی نظام سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔ آج جس بشن رائے کالج کا معاملہ ان دنوں سرخیوں میں ہے، سچ تو یہ ہے کہ وہاں کی بدعنوانیوں کا چرچہ ماضی میں بھی عام رہا ہے۔ گزشتہ سال بھی یہاں کے طلبا کے رزلٹ کی پوزیشن تبدیل ہوئی تھی اور ایک دہائی پہلے بھی یہی کالج سرخیوں میں آیا تھا کہ یہاں کے تقریباً 412 طلبا فرسٹ ڈویزن کر گئے تھے۔ یہ واقعہ 2005 کا ہے۔ اس وقت بھی اس بدعنوانی پر خوب ہنگامے ہوئے تھے اور آخرکار بورڈ کو دوبارہ کاپیوں کی جانچ کرانی پڑی تھی۔ اس کے بعد محض پندرہ یا بیس لڑکے ہی فرسٹ ڈویزن کرپائے تھے۔ غرض کہ اس کالج کا میرٹ گھوٹالے سے چولی اور دامن کا رشتہ رہاہے۔ مگر اس کے باوجود اس کالج کی انتظامیہ کے خلاف کبھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس لئے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کالج کے پرنسپل اور سیکریٹری ودیگر ممبران کے سروں پر بڑے سیاسی آقاؤں کا ہاتھ ہے، ورنہ اگر دس سال قبل ہی خاطر خواہ قانونی کارروائی ہوگئی ہوتی تو آج بہار اتنا شرمسار نہیں ہوتا۔
مختصر یہ کہ بہار میں تعلیمی ڈھانچے کو مستحکم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس وقت صرف اور صرف معیاری تعلیم کی ہی اہمیت رہ گئی ہے۔ آج گلوبلائزیشن کے دورمیں وہی طالب علم مقابلہ جاتی دور میں شامل ہوسکتا ہے جس کے اندر صلاحیت ہے۔ اب وہ دور چلا گیا کہ جب صرف ڈگریوں کی بدولت سرکاری اور غیر سرکاری ملازمت حاصل کی جاتی تھی۔اب تو ہر جگہ میرٹ کی بنیاد پر ہی کوئی جگہ بن پاتی ہے۔ ایسے دور میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی تعلیم اگر کاغذی ثابت ہوتی ہے تو پھر ریاست کا تعلیمی معیار کیا ہوگااور وہ کاغذی ٹکڑے طالب علموں کے کس کام کے ہوں گے۔ میرے خیال میں اس مایوس کن حالات کے لئے کہیں نہ کہیں حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ کیوں کہ ریاست کے سرکاری کالجوں میں ایک دہائی سے اساتذہ کی بحالیاں نہیں ہوئی ہیں۔ اکثر کالجوں میں تو کئی شعبے بغیر اساتذہ کے ہیں، جہاں تک غیر سرکاری ڈگری اور انٹر کالج کا سوال ہے تو وہاں اساتذہ تو ہیں لیکن وہ بغیر کسی تنخواہ کے ہیں۔ ادھر حالیہ برسوں میں رزلٹ کی بنیاد پر ان غیر سرکاری کالجوں کو مالی تعاون دیا جانے لگا ہے۔ غرض کہ فرسٹ ڈویزن، سکینڈ ڈویزن اور تھرڈ ڈویزن سے پاس ہونے والے طلبہ کی تعداد کے حساب سے مالی تعاون جاری کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کالجوں کے اساتذہ اور انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے طلبا زیادہ سے زیادہ فرسٹ ڈویزن حاصل کریں، تاکہ ان کے مالی تعاون میں اضافہ ہوسکے۔ اس کے لئے ان کالجوں کے طلبہ سے بڑی رقومات وصول کی جاتی ہیں اور انہیں اچھے نمبرات دلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں انٹر میڈیٹ امتحان میں بدعنوانی کا گراف بلند ہوا ہے۔ بشن رائے کالج تو ایک نمونہ ہے، اگر حکومت ایمانداری سے جانچ کرے تو نہ جانے اس طرح کی بدعنوانی کے کتنے نمونے سامنے آئیں گے۔ اس لئے اگر واقعی حکومت ریاست میں تعلیمی معیار کو بلند کرنا چاہتی ہے اور تمام تر بدعنوانیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے کئی ٹھوس اور سخت اقدام اٹھانے ہوں گے۔ اگرچہ اس سال امتحان میں نقل نویسی پر جس طرح نکیل کسنے کی کوشش کی گئی وہ ریاست میں صحت مند تعلیمی فضا کے لئے خوش آئند تھا لیکن کاپی جانچ میں بدعنوانی کو روکا نہیں جاسکا۔ نتیجہ ہے کہ آج قومی سطح پر بہار کا تعلیمی نظام موضوع بحث بن گیا ہے۔ اس لئے حکومت کو اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے اور ان غیر سرکاری کالجوں کے اساتذہ کے لئے کوئی متعینہ تنخواہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ سرکاری اور غیر سرکاری کالجوں میں تعلیم کا ماحول سازگار ہوسکے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عوام الناس کو بھی معیاری تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہونا ہوگا اور حکومت کو تعلیمی شعبہ کو سیاست سے پاک کرنا ہوگا۔آج بہار میں پرائمری سے لے کر اعلی تعلیمی مراکز میں جس طرح سیاست دخیل ہوگئی ہے اس سے بھی تعلیمی ماحول متاثر ہورہا ہے۔ کیوں کہ تعلیم، صحت اور حفاظت کے شعبے میں جب سیاست دخیل ہوجاتی ہے اور ان شعبوں کو بھی انتخابی پروپگنڈے کا حربہ بنانے کی خاطر کمتر صلاحیت کے لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا جاتا ہے تو اس کا حشر بھی اسی طرح مایوس کن ہوتا ہے اور یہ حقیقت تو مسلم ہے کہ کسی بھی ملک یا ریاست کی مستحکم شناخت کا ضامن معیاری تعلیم، بہتر صحت کا نظام اور قابل اعتماد حفاظتی انتظام ہی ہوتا ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ آج قومی سطح اور ریاستی سطح پر بھی ان حساس ترین شعبہ جات میں بحرانی کیفیت ہے جو ملک کی بقا کے لئے بہرحال مضر ہے۔ (ملت ٹائمز)
یہاں کلک کرکے ملت ٹائمز کا فیس بک پیج جوائن کریں اوررہیں ہر تازہ اپڈیٹ سے باخبر