الیکشن میں ہم کیا کریں !؟

محمد شارب ضیاء رحمانی

ہرسمت یہی فکر ہے کہ سیکولر ووٹ نہ بکھرنے پائے، پرینکا گاندھی کو اتارکر کانگریس نے مضبوط لڑائی کی طرف اشارہ کردیا ہے، بہار سمیت کچھ ریاستوں میں سیدھا مقابلہ ہے، مسئلہ اتر پردیش، مغربی بنگال، پنجاب اور دہلی کا زیادہ اہم ہے، اگر ان ریاستوں میں ہوش مندی کا مظاہرہ کیا گیا تو این ڈی اے کی واپسی ناممکن ہے، کانگریس اگر سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں چاہتی ہے اور وہ سنجیدہ ہے تو اترپردیش میں بیس سے تیس سیٹوں سے زیادہ پر نہ لڑے، اگر وہ صرف تیس سیٹوں پرلڑتی ہے اور پچاس سیٹیں گٹھ بندھن کے لیے چھوڑ دیتی ہے تو این ڈی اے کی کم از کم پینتالیس سیٹیں کم ہوں گی جس کا سیدھا مطلب ہے کہ این ڈی اے کے لیے اقتدار مشکل ہے بلکہ کانگریس کے لیے حصول اقتدار اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ وہ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ یا تو ایلائنس کرے یا کم از کم ان ریاستوں میں میدان ان کے لیے چھوڑ دے، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، تلنگانہ، پنجاب، دہلی، اترپردیش میں بالترتیب ترنمول، تیدپپا، وائی ایس آر، عام آدمی پارٹی، ایس پی بی ایس پی گٹھ بندھن کے لیے زمین چھوڑ دی جائے یا کانگریس کمزور لڑائی لڑے تو یوپی اے کی واپسی یقینی ہوگی ورنہ ممکن ہے کہ اکھلیش اور مایا وتی راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات اور چھتیس گڑھ میں نقصان پہنچائیں گے جہاں کانگریس سے سیدھا مقابلہ ہے، یوپی میں نرم رویہ رکھنے کی وجہ سے ان چار ریاستوں میں ایس پی، بی ایس پی باز رہ سکتی ہیں۔

دوسری بات کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے، یہ طے ہے کہ کوئی بھی سیکولر نہیں ہے، ضرورت کے لیے سیکولرزم دکھایا جاتا ہے، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جس اسٹیٹ میں کانگریس کے ساتھ مہاگٹھ بندھن ہے تو ٹھیک ہے جیسے بہار، تمل ناڈو، کرناٹک، مہاراشٹر، جموں و کشمیر، جھار کھنڈ، آسام، لیکن جہاں کانگریس تیسری پارٹی ہو، وہاں کانگریس کو ووٹ نہ دیاجائے، ریاستی پارٹیوں کو یک طرفہ سپورٹ کیا جائے، جیسے یوپی میں دو چار کانگریس کی وی آئی پی سیٹ پرتواسے ووٹ دیاجائے باقی گٹھ بندھن کو ووٹنگ کی جائے، بنگال میں کانگریس کو ووٹ دے کر برباد نہی‍ں کرنا چاہیے، ترنمول متبادل موجود ہے۔

اس سے یہ پیغام بھی جائے گا کہ مسلمان کانگریس کے بندھوا مزدور نہیں ہیں، کمل ناتھ جس راستے پر ہیں، اس کے لیے اسے کچھ سبق سکھانا بھی ضروری ہے۔

ہاں جن ریاستوں میں مضبوط علاقائی پارٹیاں نہیں ہیں وہاں کانگریس کی حمایت کی جائے، اتراکھنڈ، ہریانہ، گجرات، پنجاب چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں سیدھی ٹکر ہے وہاں کانگریس ہی متبادل ہے۔

یہ ایک رائے ہے، ارباب نظر و فکر اس جہت پر اپنی رائے رکھ سکتے ہیں، ممکن ہے یہ تجویز غلط بھی ہو لیکن کسی نہ کسی لائحہ عمل تک تو پہونچنا ہوگا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں