قیدِ حیات و بندِ غم

  سیدہ تبسم منظور ناڈکر

انسان کی فطری ضروریات و چاہتوں کے مخالف امور کے ردعمل میں جو کیفیات انسان میں پیدا ہوتی ہے اسے دکھ کہتے ہیں۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ مان لیں اگر آپ ایک درخت ہو اور آپ کی خزاں زدہ زرد شاخیں بہار کی دعائیں کر رہی ہیں اور ایک پربہار ہوا کا جھونکا آپ کی شاخوں سے کتراتا ہوا گزر جائے تو آپ کے اندر پیدا ہونے والی کیفیت کو دکھ کہتے ہیں۔ اگر اپ کو جاننا ہو کہ دکھ کیا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اس تنہا شخص کے مانند سمجھو جو چلچلاتی دھوپ میں صحرائے میں ہو اور شدت پیاس میں پانی کی ایک بوند کے لئے ترس رہا ہو اور کوئی بادل گرجتا، طنز کرتا، بغیر برسے آپ کے قریب سے گزر جائے تو آپ کو احساس ہوگا کہ دکھ کیا ہوتا ہے۔ دکھ کی کیفیات کو تحریر میں لانے کیلئے خود ہی کو دکھ کے سمندر میں غوطہ لگانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ایک امر حقیقی ہے کہ دکھ لکھنے سے دکھ سہنا زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ تحریر کو جب جب پڑھا جائے گا دکھ کے زخم تازہ ہو جائیں گے۔

       دکھ تو درد کی ایک سوغات ہے۔آنکھوں میں آنسو کی ان چاہی برسات ہوتی ہے۔دنیا میں ہر امیر غریب کو نیک و بد سب کو دکھوں، غموں اور پریشانیوں سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور واسطہ پڑتا ہے لیکن وہ انسان خوش نصیب ہوتا ہے جو اس دکھ اور پریشانی کو صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کرکے اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرلیتا ہے۔ یہ دنیا مصیبتوں، دکھوں، پریشانیوں اور غموں کا سرایہ ہے۔ کیسی کو اولاد کی نافرمانی کا دکھ ہے ۔۔۔۔۔ کیسی کو اولاد نہ ہونے کا دکھ ہے ۔۔۔۔ کیسی کو مال ودولت کے ختم ہوجانے کا دکھ ہے۔کیسی کو کیسی کی موت کا دکھ ہے ۔۔۔ کیسی کو اکیلے پن کا دکھ ہے۔ اس دنیا میں کئی طرح کے دکھ ہیں۔ دکھ تکلیف پریشانی کا آنا جانا کوئی نئی بات نہیں۔

       بہت سے دکھ ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے نصیب میں لکھے ہوتے ہیں، وہ ہمیں مل کر ہی رہتے ہیں ۔ زندگی میں کئی سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ چاہے وہ ہمیں کتنی بھی بری لگیں مگر انہیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ انسان ہر وقت اپنی زندگی میں آنے والے دکھوں کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ دکھ اس پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر زندگی میں خوشیاں آ بھی جائیں تو وہ انہیں دیکھ نہیں پاتا۔ اور کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خود دکھ کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ہمارے آس پاس کے لوگ ۔۔۔۔ ہمیں ان دکھوں سے نکلنے ہی نہیں دیتے !!! لیکن ہم اپنے فرض کو چھوڑ کر بھاگ بھی تو نہیں سکتے ۔۔۔ اپنے رشتوں ۔۔۔ اپنے گھر پریوار میں رہ کر سکھ دکھ کو ساتھ لے کر سب کی خوشی کے لئےچلنا پڑتا ہے۔ایسے میں کئی دکھ ہمارے اندر تک اترجاتے ہیں اور ہم ان ہی دکھوں کی ایک مورت بن جاتے ہیں۔جب اس پر کسی ایسے ساتھی کی کوئی بری خبر مل جاتی ہے جس کے ساتھ ہم نے پورا بچپن پوری جوانی بتائی ہو ۔۔۔۔ اور اس ساتھی کو کچھ ہو جائے تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دکھ یا درد کسے کہتے ہیں۔ یہ بات وہ لوگ بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے زندگی میں اپنے ساتھی دوست یا بہن بھائی یا کسی عزیز کو گنوا دیا ہوں۔ کیونکہ ایسے میں دل پر ایک ایسا بوجھ ایسا طوفان ہوتا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ انسان گھنٹوں ۔۔۔ کئی دنوں تک رو کر دکھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتا ہے پر کچھ سمجھ ہی نہیں آتا۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی سے بے انتہا محبت کریں اور وہ انسان ہمیں نظر انداز کریں تب دل دکھ سے کراہ اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ جب ہمیں کسی پر بہت اعتماد ہوتا ہے اور وہ شخص ہمارے اعتماد کی دھجیاں اڑا کر چلا جائے تب دکھ ہوتا ہے ۔۔۔کبھی کبھی ہم اپنے پن ۔۔۔۔۔ محبت، پیار کو ایسی غلط جگہ تلاش کرنے میں اپنا دل، دماغ، وقت ضائع کرتے ہیں۔ جہاں سے کوئی توقع نہیں ہوتی۔

    سب سے بڑا دکھ تو تب ہوتا ہے۔جب کوئی ماں اپنے بچوں کو بھوک سے نڈھال دیکھے اور ان کے لئے روٹی کا انتظام نہ کر سکے ۔۔۔۔ جب کوئی ماں اپنے لخت جگر کو دوائی نا ملنے کی وجہ سے اپنی ہی گود میں مرتا ہوا دیکھے اور وہ کچھ کر نہیں پائے ۔۔۔۔۔ کوئی بچہ ٹھنڈ میں ننگے بدن بیٹھا ہو اور سکڑ رہا ہو ۔۔۔۔ کہیں کوئی بچہ کسی بورڈینگ میں ایک کونے میں بیٹھ کر اپنے والدین کو یاد کرکے آنسو بہا رہا ہو اور سوچ رہا کہ کیوں تنہا ہوں ۔۔۔۔۔ جب کوئی بچہ اپنے باپ کو ہر روز مرتا ہوا دیکھے جو کسی بیماری میں مبتلا ہو۔۔۔۔ جس کو پتہ ہو اب اس کے سر سے یہ سایہ چھین جانے والا ہے ۔۔۔۔۔ جب کبھی آپ کا کوئی اپنا جو بہت عزیز جو اچھا بھلا ہو اور اس کی موت کی اچانک خبر مل جائے۔ اور آپ کہیں دور ہوں تب دکھ کی انتہا ہوتی ہے۔ ہم جن کے لئے سب کچھ لٹا دیں اس کی ہر خواہش ہر تمنا پر قربان ہو جائیں اور وہ منہ موڑ ہمیں چھوڑ جائے تو دکھ ہوتا ہے۔

     کوئی بیوہ عورت اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کسی کے گھر میں کام کر رہی ہو اور اس گھر کا مالک اس کو گھور رہا ہو تب وہ دکھ سے کراہ اٹھتی ہے ۔۔۔۔۔ جب کوئی یتیم معصوم بچی اسکول کے کلاس روم سے صرف اس لئے باہر کردی گئی ہو کہ اس کی فیس ادا نہ ہوئی ہو اوراپنی اس لاچاری پر آنسو بہا رہی ہوں ۔۔۔۔ کہیں دور کسی ریگستان میں موت سے کوئی لڑ رہا ہو اور پانی کی ایک بوند کے لئےتڑپ رہا ہو اور سوچ رہا ہوگا کہ کہیں سے کوئی تو آئے اور دو گھونٹ پانی پلا جائے ۔۔۔ کسی جیل میں کوئی اپنے ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہا ہو سسکتے هوئے اپنوں کے چہروں کو ترس رہا ہو ۔۔۔۔ کوئی مریض بستر پر موت اور زندگی سے لڑ رہا جسے اپنوں کا اپنے دوستوں کا انتظار کرتے آنکھیں پتھرا جانے ۔۔۔ تب دکھ ہوتا ہے۔

 کئی دکھ انسان کے اندر تک بس جاتے ھیں اور پھر وہ انسان سمندر کی طرح گہرا هو جاتا ہے۔ اگر اس میں پتھر بھی پھینکو تو آواز باہر نہیں آتی اور وہ کتنی گہرائی تک گیا پتہ بھی نہیں چلتا۔ جب دکھ شدت اختیار کرلے تو چپ رہنا چاہیے یہی صبر کے لمحات ہوتے ہیں۔ زندگی میں بس اتنا جاننو دکھ میں اکیلے رہنا ہے اور خوشی میں سارا زمانہ ساتھ ہوتا ہے۔ مرزا غالبؔ نے کہا ہے کہ ؂ 

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں 

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں 

 رابطہ: 9870971871

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں