مودی کا دوبارہ پی ایم بننا مشکل : سنجے راؤت

سنجے راؤت نے ریاست میں اپنی پارٹی کو بی جے پی سے کمتر ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’’ دونوں ہی پارٹیاں لوک سبھا انتخابات میں تقریباً برابر سیٹوں پر امیدوار کھڑے کر رہی ہیں لیکن ہم ہی بڑے ہیں۔ ‘‘
شیوسینا نے گزشتہ روز بی جے پی کے ساتھ مل کر لوک سبھا انتخاب لڑنے کا اعلان ضرور کر دیا، لیکن وزیر اعظم کی شکل میں دوبارہ نریندر مودی کے نام پر وہ کشمکش کی حالت پیدا کر رہی ہے۔ ایک انگریزی روزنامہ سے بات چیت کے دوران آئندہ لوک سبھا انتخابات کے تعلق سے شیو سینا کے سرکردہ لیڈر سنجے راؤت نے کہا کہ ’’ اگر بی جے پی 2014 کے مقابلے 100 سیٹیں کم حاصل کرتی ہے تو پی ایم کون بنے گا یہ این ڈی اے طے کرے گا۔ ‘‘ اس بیان سے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نریندر مودی کا دوبارہ پی ایم بننا مشکل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخاب کے لیے مہاراشٹر کی 48 سیٹوں میں شیو سینا 23 اور بی جے پی 25 سیٹوں پر انتخاب لڑے گی۔ شیو سینا یہاں بی جے پی سے زیادہ سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی تھی اور اسی لیے لگاتار پی ایم مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور دباؤ بنایا گیا۔ لیکن بی جے پی نے 25 سیٹیں اپنے حصے میں رکھ کر شیو سینا کو منا لیا۔ اس معاملے میں سنجے راؤت کا کہنا ہے کہ ’’ ہم اب بھی ریاست میں سب سے بڑے ہیں۔ 2014 میں بی جے نے یہاں 123 سیٹیں جیتی تھیں اور شیو سینا نے 63، اس کے باوجود اس بار بی جے پی اور شیو سینا تقریباً برابر سیٹوں پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بی جے پی مہاراشٹر میں شیو سینا کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ دینے کے بارے میں مثبت سوچ رکھتی ہے۔‘‘
جب سنجے راؤت سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا شیو سینا پوری مدت کے لیے وزیر اعلیٰ کی کرسی اپنے پاس رکھے گی، تو انھوں نے کہا کہ ’’ اس سلسلے میں بعد میں غور کیا جائے گا، لیکن وزیر اعلیٰ تو شیوسینا کا ہی ہوگا۔ ‘‘ شیو سینا کے ذریعہ پی ایم نریندر مودی کی لگاتار تنقید کیے جانے کے باوجود ایک بار پھر پی ایم کا چہرہ قبول کیے جانے سے متعلق جب راؤت سے پوچھا گیا تو انھوں نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ شیو سینا نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے۔ ہم نے حصول اراضی کے قانون کی مخالفت کی ہے۔ کسانوں کی زرخیز زمین پر اسمارٹ سٹی نہیں بن سکے، اس کے لیے کام کیا۔ ہم نے بلیٹ ٹرین کی بھی مخالفت کی ہے، کیونکہ اس سے کسانوں کو نقصان ہوگا۔ ایسے ہی ہم نے نوٹ بندی کی بھی مخالفت کی تھی کیونکہ اس سے بے روزگاری بڑھی۔ رام مندر پر بھی سوال اٹھایا گیا ہم نے ہمیشہ ان کی پالیسیوں کی تنقید کی ہے۔ ‘‘
’ سامنا ‘ کے ایک کالم میں معلق اسمبلی کے امکانات اور گڈکری کے ذریعہ اس معلق اسمبلی کا انتظار کیے جانے سے متعلق جب شیو سینا لیڈر سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’ میں نے پی ایم کے لیے گڈکری کی حمایت نہیں کی۔ میڈیا اور آر ایس ایس سے ایسی خبریں آتی رہی ہیں۔ ہم نے بی جے پی کے سامنے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ اس کے علاوہ صرف گڈکری کا نام کیوں؟ بی جے پی میں بہت سے چہرے ہیں۔ ‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ بی جے پی پچھلی بار سے 100 سیٹیں کم جیتتی ہے تو این ڈی اے ہی طے کرے گا کہ پی ایم کون ہونا چاہیے۔ ‘‘