عمر فاروق قاسمی
ادھر کچھ سالوں سے شہر تو شہر دیہاتوں کےاندر بھی پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، اسکول کھولنے والوں میں مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی، مسلمانوں کی طرف سے یہ پیش قدمی یقیناً قابل ستائش ہے، کیونکہ مسلم معاشرہ کے لئے علما، فقہا، مفتیان اور ائمہ کرام کے ساتھ، ڈاکٹرس، انجینئرس، لیکچررس، سائنس اور قانون دانوں کی بھی ضرورت ہے، اول الذکر کے مراکز مدارس ہیں تو ثانی الذکر کی فیکٹریاں اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں، بلاشبہ مسلمانوں بالخصوص علمائے کرام کو بھی اس حوالے سے اتنے ہی محنت کی ضرورت ہے جتنا ابھی تک علما نے مدارس کے لئے کی ہے ، البتہ مسلم اسکولوں کے ذمہ داران اس بات کو یقینی بنائیں کہ، ہمارا تعلیمی نظام و نصاب بچے اور بچیوں کے ذہنی ارتداد، اسلامی افکار و نظریات سے ان کے انحراف اور فحاشی و بےحیائی پر آمادگی کا ذریعہ نہ بنے۔
دوسری طرف طلبہ و طالبات کے والدین و ذمہ داران کسی بھی اسکول میں داخلہ سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ان کے یہاں کا نظام و نصاب ہمارے بچوں اور بچیوں کو عملی اور فکری اعتبار سے ملحد یا مشرک تو نہیں بنارہا ہے؟ اور دنیا سنوارنے کے نام پر ہماری نئی نسل کی آخرت تو برباد نہیں ہورہی ہے؟ اس کے لئے دڑیس کوڈ، دعائیہ ترانہ، گیت اور لوری پویم ،سمیت اس کے نظام و نصاب کا بھی جائزہ لیا جائے، اور اسکول کے ذمہ داران سے عموماً اور مسلم ذمہ دان اسکول سے خصوصاً اس کی اصلاح کا دباؤ بنایا جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ عہدِ جدید میں جہاں الحاد کی آزادی ہے، وہیں ہمیں بھی اسلام کی آزادی چاہیے ؛ ظاہر ہے کہ اسکول کا مقصد علماء تیار کرنا نہیں؛ اس لئے اعلیٰ اسلامی تعلیم کی گنجائش تو نہیں ہوگی لیکن سائنس، شوسل سائنس، حساب، انگلش، اور ہندی کے ساتھ ساتھ روزانہ ایک گھنٹی اردو اور ایک گھنٹی دینیات ( بشمول قرآن ناظرہ اور کچھ سورہ حفظ، بنیادی عقائد، نماز و زکواۃ روزہ و حج، نکاح طلاق اور حلال و حرام کے عمومی مسائل ) کلاس نو تک انتظام کروایا جائے اور انہیں یہ بتایا جائے کہ ہمارے بچے اور بچیاں ڈانس جیسی لایعنی چیزوں سے الگ رہیں گی ؛ ہماری بچیوں کا ڈریس کوڈ اسکرٹ کی جگہ شلوار جمپر اور سر پر ڈوپٹہ رہے گا۔
یاد رہے کہ قیامت کے میدان میں ہمیں پچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی سوال ہوگا، اور ہماری ناقص تربیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فکری، قولی اور عملی ارتداد کا جواب ہمیں بھی دینا ہوگا،
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ) متفق عليه
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ خبردار رہو، تم میں سے ہر شخص چرواہا (ذمہ دار) ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اپنی رعیت (ماتحت) کے بارے میں سوال ہوگا، چنانچہ جو لوگوں کا امیر ہے اس سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، اور مرد اپنے گھر والوں (بیوی بچوں اور جو ان کے ماتحت ہیں ) کا چرواہا (نگراں) ہے اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا، غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا، خبردار تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا.
قرآن میں فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
( ترجمہ : اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔ ) (ترجمہ جوناگڑھی)
[ مشرقی تہذیب کے داعی اور اسلامی ثقافت کے مبلغ معروف شاعر اکبرؔ الہ آبادی نے بہت ہی خوب کہا:
تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو ، چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندۂ عاجز کی رہے یاد !
اللہ کو اور اپنی کی حقیقت کو نہ بھولو