ڈاکٹر یامین انصاری
کچھ نیوز چینل تو منصوبہ بند طریقہ سے حکومت اور سنگھ پریوار کےپروپیگنڈہ کا حصہ بن گئے ہیں، بلکہ ملک میں نفرت کو ہوا دینے میں بھی مصروف ہیں
ہندستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بھلے ہی باقاعدہ جنگ نہ ہوئی ہو ، لیکن جنگ کے بادل ابھی منڈلا رہے ہیں۔ یعنی خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اس درمیان جنگ سےبھی بڑا خطرہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ خطرہ ہے میڈیا، اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا۔ افسوس یہ کہ یہ خطرہ سرحد کے اِدھر بھی ہے اور اُدھر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد کے دونوں جانب حکومتوں اورافواج سے زیادہ ہمارے ٹی وی اسٹوڈیوز جنگ کا میدان بن گئے ہیں۔ یہاں کی چیخ و پکار، ایک دوسرے پر لعن طعن، دشنام طرازی، بڑے بڑے اور جھوٹے دعوے، گمراہ کن رپورٹنگ اور تجزیے۔غرض یہ کہ ان ٹی وی چینلوں نے عجیب سی جنونی اور ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ویسے اپنے ہی پیشے کے بارے میں اور وہ بھی تنقیدی نقطہ نظر سے لکھنا ایک دشوار کن مرحلہ ہے، لیکن صحافت کا پہلا اصول ہی کہتا ہے کہ اپنے جذبات اور نظریات سے بالاتر ہو کر اپنے کام کو انجام دیا جائے۔ ویسے راقم الحروف نے اس پیشہ میں آنے کے بعد اور تمام تر موافق و نا موافق حالات کے باوجود حتی الامکان کوشش کی ہے کہ کسی بھی قیمت پر اصولوں سے سمجھوتہ نہ کیا جائے۔کیونکہ حقیقت میںتو صحافت اصول پسندی اور اصولوں پر قربان ہوجانےکا ہی نام ہے۔ بھلے ہی آج اس پیشہ میں شامل ایک طبقہ نے نہ صرف اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے، بلکہ اپنے ضمیر کے ساتھ ہی اپنے قلم کا بھی سودا کر لیا ہے۔ یہ ہمارےدور کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ آج ٹی وی جرنلزم، صحافت کم چاپلوسی اور اداکاری زیادہ نظر آتی ہے ۔یہاں خبریں بکنے لگی ہیں، بلکہ چیخ چیخ کر بیچی جارہی ہیں۔ ورنہ صحافت کا اصول تو کہتا ہے کہ کسی خوف اور لالچ کے بغیر حکومتوں سے سوال کیا جائے ، ان کے کاموں کا حساب لیا جائے، عوام کے مسائل کو اٹھایا جائے، حکومتوں کی کوتاہیوں اور لاپروائیوں کو سامنے لایا جائے، چاہے حکمران کتنا ہی طاقت ور شخص ہی کیوں نہ ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی ملک میں مولوی محمد باقر جیسے صحافی بھی پیدا ہوئے ہیں۔ مولوی محمد باقر کا شمار ایسے مسلم مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے جو صحافی تو تھے ہی، حب الوطنی کو ایمان کا جز سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی بے باک صحافت سے انگریزحکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ تمام تر ظلم و زیادتیوں کے باوجود ان کا قلم خاموش نہیں ہوا، حکومت وقت کے سامنے انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ آخر کار اپنے صحافتی اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرنے کے سبب ۱۶؍ ستمبر۱۸۵۷ء کو مولوی باقر کو توپ کے منھ پر باندھ کر شہید کر دیا گیا۔ جب ہماری صحافتی تاریخ میں ایسے جانباز اور اصول پسند صحافی موجود رہے ہوں تو پھر ہمیں ان کو اپنا آئیڈیل ماننے میں کیا قباحت؟ آج اگر صحافیوں کو سوال کرنے سے روکا جا رہا ہے، ان کے قلم اور زبان پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہو، انہیں خریدنے اور دھمکیاں دینے کی کوشش کی جا رہی ہےاور یہ سب ممکن ہو رہا ہے تو سمجھ لیں کہ قلم اور زبان اپنا وجود کھو چکے ہیں۔
پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلہ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد الیکٹرانک میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ کسی فلم کے ولین کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ جھگڑا ،فساد، جنگ اور نا خوشگوار حالات میں تومیڈیا سے امید کی جاتی ہےکہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرے اور کوشش کرے کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ لیکن آج اس کے بالکل بر عکس ہو رہا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد ہندستان اور پاکستان کے درمیان جیسے جیسے کشیدگی بڑھی، میڈیا نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ چینلوں پر چیختے چلاتے، انتقام لینے، عوام کو مشتعل کرنے اور حکومت سے پاکستان کے خلاف فوری کارروائی کا دباؤ بناتے ٹی وی اینکر لگتا ہے جیسے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ انہیں انسانی جانوں کی نہ پروا ہے اور نہ ہی کوئی قدر و قیمت۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر ہی سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ آج کی صحافت نے اپنے اصولوں سے مکمل طور پر سمجھوتہ کر لیاہے۔ انھیں لگتا ہے کہ دنگا، فساد اور جنگ کے حالات سے بہتر ان کے لئے کچھ نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ اب خبریں اور صحافت بیچی جا رہی ہے تو ایسے میں یہ حالات ان کے لئے ایک سامان ہے، جسے وہ مزید مرچ مسالہ لگا کر فروخت کر رہے ہیں۔ فی الوقت میڈیا نے اپنی کارکردگی کے ذریعہ جو رسوائی اور بدنامی حاصل کی ہے، وہ ان کا سرمایہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اب قارئین اور ناظرین بھی بخوبی ان کی اداکاری اور چاپلوسی کو سمجھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ٹی وی اینکر تو اپنی اشتعال انگیزی کے سبب معاشرے میں فلم کے ولین کی طرح دیکھے جا رہےہیں۔ انھیں اب سماج دشمن اور شر پسند عناصر بھی شمار کیا جانے لگا ہے۔یہاں تک کہ عالمی سطح پر بھی ہمارے میڈیا کی مضحکہ خیزشبیہہ بن گئی ہے۔ جہاں کئی موقعوں پر ہندستانی میڈیا کی تضحیک کی گئی ہے۔ اور یہ سب پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ہی ہوا ہے۔یعنی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت صحافت اپنے سب سے خراب دور سے گزر رہی ہے۔ ورنہ آج بھی صحافتی اصولوں پر چلنے والے اور ملک میں اشتعال انگیزی اور نفرت کےخلاف ببانگ دہل بولنے والے سر فہرست ٹی وی صحافی رویش کمار کو ناظرین سے اپیل نہیں کرنی پڑتی کہ آپ لوگ صرف دو ڈھائی مہینہ ٹی وی دیکھنا بند کر دیں۔
کچھ نیوز چینل تو جیسے منصوبہ بند طریقہ سے نہ صرف حکومت اور سنگھ پریوار کےپروپیگنڈہ کا حصہ بن گئے ہیں، بلکہ ملک اور معاشرے میں نفرت کو ہوا دینے میں مصرو ف ہیں۔ان میں صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف زہر افشانی کرنے والا ’ری پبلک‘ چینل سر فہرست ہے۔ ابھی تک انگریزی میں ہی اپنی اشتعال انگیزی اور چیخ و پکار کے لئے مشہور رہا یہ چینل اب ہندی میں بھی مخصوص پروپیگنڈہ کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ری پبلک چینل نے لانچنگ کے دن ہی ایک جھوٹی اور پروپیگنڈہ پر مبنی خبر چلائی۔ اس چینل نے پہلے ہی دن ایودھیا سے متعلق ۲۸؍ سال کے بعد فرضی اور جھوٹی خبر چلائی۔ جس کا مقصد ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکانا اور یو پی میں سماجوادی پارٹی کے خلاف ماحول بنانا تھا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس کے کچھ دن کے بعد ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک جھوٹے معاملے کو بڑے ہنگامہ میں تبدیل کرنے میں اس چینل کا بڑا رول رہا۔شدت پسند ہندو تنظیموں کی روش اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے سہارے ہندستانی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنا اس چینل نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ حال ہی میں جماعت اسلامی ہند اور اس کے سربراہ کو ری پبلک چینل نے اپنے جھوٹے اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کا شکار بنایا۔ ذمہ دارانہ صحافت کے اصولوں کو روندتے ہوئے چینل نے جماعت اسلامی ہند کے صدر مولانا جلال الدین عمری کے بارے میں انتہائی قبل اعتراض مواد پیش کیا۔ روزنامہ انقلاب نے اس پروپیگنڈہ کے خلاف مہم چلائی اور آخر کار چینل اور اس کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی کو غیر مشروط معافی مانگنی پڑی۔ اسی طرح کانگریس لیڈر ششی تھرور کی اہلیہ سنندا پشکر کی موت کے معاملے میں بھی گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی کوریج کے سبب اسے ایک عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں، اس کے علاوہ بھی کئی دیگر چینل سنگھ پریوار کی مسلم مخالف اور حکومت حامی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ جنگی جنون میں ڈوبے ہوئے ایسے ہی ایک انگریزی چینل ’سی این این نیوز ۱۸‘نےمسجد حرام ،مسجد نبویؐ اور مسجد اقصیٰ کی تصویریں دکھاکر اسے جیش محمد کی دہشت گردی کی فیکٹری قراردے دیا۔روزنامہ انقلاب نے اس معاملے کو بھی اٹھایا، آخر کار اس اسٹوری پر نیوز ۱۸؍ نیٹ ورک نے وضاحت نامہ جاری کیا۔ چینل نے اپنی وضاحت میں کہا کہ یکم مارچ کو فرسٹ پوسٹ،سی این این اور نیٹ ورک ۱۸؍ کے دیگر پلیٹ فارم نے ایک تفتیشی رپورٹ چلائی تھی جس میں پروپیگنڈہ ویڈیو کا استعمال کیا گیا تھا، جس کو جیش محمد نے اپنے مدرسہ کی وسعت دکھانے کیلئے تیار کیا تھا۔ اب یہ کون سا صحافتی اصول ہے کہ ایک دہشت گرد تنظیم کا پرپیگنڈہ مواد چینل پر چلایا جائے؟خدا جانے یہ چینل ہندستان کو کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو اس کے نتائج بہت دھماکہ خیز ہو سکتے ہیں۔