سیف الرحمٰن
بیورو چیف ملت ٹائمز
عالم انسانیت کا وجود دو جنسوں پر مبنی ہے ایک جنس مرد ہے ایک جنس عورت. دنیا میں 50فیصد مرد ہے تو 50 فیصد عورتیں. ان میں ان دونوں کا وجود ایک دوسرے کے وجود کا ذریعہ ہے. بغیر مرد کے کسی عورت کی پیدائش ممکن ہے نہ ہی بغیر عورت کے کسی مرد کی. دونوں کا مفاد بھی ایک دوسرے سے وابستہ ہے. جنس کی بنیاد پر دونوں کے مفاد کا ٹکراؤ نہی پایاجاتا ہے مثلاً کسی میاں-بیوی کے درمیان تنازع ہوجائے تو میاں کی بہن اپنی بھابھی کے ساتھ جوکہ اسکی ہم جنس ہے نہی دکھے گی بلکہ اپنے بھائی کے ساتھ ہوگی جوکہ اسکے جنس مخالف سے ہے اسی طرح بیوی کا بھائی اپنے بہنوئی کے ساتھ نہی بلکہ اپنی بہن کے ساتھ کھڑا ہوگا اس سے پتا چلتا ہیکہ جنس کی بنیاد پر انکے مفادات کا ٹکراؤ نہی ہے. لیکن آج ویسٹ اور لیفٹ نے ایسا ماحول بنادیا ہے جس میں عورت کو مرد کے مقابلے کھڑا کردیاگیا ہے اور مرد کو عورت کے مقابلے اس بیچ ایک خاص طبقہ کی طرف سے یہ باور کرانے کی بھی مسلسل کوشش ہوتی رہی ہے کہ مزہب اسلام نے عورتوں کو پردہ میں قید کر اسکے حقوق چھین لیا اور انہیں غلام بنادیا ہے جبکہ اگر ہم غور کرتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے جسکی چند مثالیں میں زندگی کے مختلف موڑ سے متعلق آپ کے سامنے رکھتا ہوں :
01.تحفظ: ملک بھارت میں انیسوی صدی کے اندر کئی شوشل ریفارمر گزرے ہیں جنہوں نے شتی پرتھا ختم کرنے اور ودھوا وواہ (بیوہ کی شادی) شروع کرنے کی مہمات چلائی ہے اب اگر ہم اسلام کی طرف دیکھتے ہیں تو اس نے انیسوی صدی سے بارہ سوسال پہلے ساتویں صدی میں ہی لڑکیوں کے دفن کردیئے جانے جیسے رسومات کو اپنے زیر مملکت علاقے سے ختم کردیا تھا ساتھ ہی پیغمبر محمد و انکے ساتھیوں نے عملی طور پر ودھوا وواہ کو عام کیا ۔
02.پراپرٹی کاحق: دنیا میں کسی بھی انسان کے زندہ رہنے اور انکی سیکورٹی کیلئے پراپرٹی ایک اہم ضریعہ ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ یورپ میں 1870 عیسوی تک اور بھارت میں 1956عیسوی تک عورتوں کو پراپرٹی رکھنے کا حق نہی تھا یہ حق یورپ میں 1870 عیسوی میں ویمنس پراپرٹی ایکٹ اور بھارت میں 1956عیسوی میں ہندوشکشیشن ایکٹ لاکر دیاگیا بلکہ بھارت میں تو اس سے پہلے کنیادان کا بھی نظریہ تھا جسکا مطلب یہ ہوتا تھا کہ باپ اپنی بیٹی کو داماد کو بطور گفٹ دیدیتا تھا جوکہ شوہر کے مرجانے پر اسکے ساتھ ہی جلادی جاتی تھی یا پھر دوسری شادی کئے بغیرسماج سے کٹ کر ایک بدتر زندگی گزارتی تھی مطلب یہ کہ عورتوں کو پراپرٹی دینا تو دور خود اسے پراپرٹی سمجھا جاتا تھا. جبکہ اسلام نے یورپ سے قریب گیارہ سوسال پہلے ہی عورتوں کو اپنے باپ اور شوہر دونوں کی پراپرٹی میں حق دیکر اسے سیکورٹی کا مضبوط ذریعہ فراہم کردیا تھا۔
03.حصول تعلیم و ہنر سیکھنے کا حق: انسان کو اپنی زندگی میں سماج میں رہنے کے طورطریقے,سماج کے قوانین, کھانے.پینے.سونے و زندگی کے دیگر لمحات سے متعلق چیزوں سے متعلق معلومات کا ہونا,علم کی روشنی کا انکے پاس ہونا بیحد ضرروی ہے. زندگی کے ہر موڑ پر مرد و عورت سبھی کو علم کے چراغ کی بہت ضرورت پڑتی ہے لہٰذا اسلام نے مرد و عورت سبھی پر علم کو فرض کیا انہیں اس پر ابھارا ہے یہی وجہ ہیکہ پیغمبر محمد نے صحابہ کرام کی تعلیم کے ساتھ انکی عورتوں کی تعلیم کا بھی انتظام کیا اور اس کیلئے اپنی بیویوں کو تیارکیاتھا انکی بیویوں کے اندر شرعی علوم,سیاسی علوم,سماجی علوم,سلائی کٹائی سمیت دیگر ہنر اور انکے ساتھ جنگی علوم کی جانکاری بھی موجود تھی اور یہ علوم و ہنر دیگر صحابیات کے اندر بھی موجود تھی یہی وجہ ہیکہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ کو جنگ لیڈ کرتے ہوئے,روم سے جنگ میں حضرت خولہ کو دشمنوں پر تلوار کی بجلیاں گراتے ہوئے اور حضرت عمر کے دور حکومت میں شفاءبن عبداللٰلہ کو مارکیٹ کا انچارج بنتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ یورپ کی عورتیں اس دور کے کئی سوسال بعد تک علم و ہنر سے کوسوں دور رہی لیکن چونکہ اسلام نے عورتوں کے حصول تعلیم و ہنر سیکھنے کا دروازہ کھول دیا تھا چنانچہ دروازہ کھلنے کے گیارہ سوسال بعد یورپ اور بھارت میں بھی عورتوں کو یہ حق ملنا شروع ہوگیا۔
04.کمانے کاحق: کسی بھی ادارہ چاہے وہ اسکول,کالجز یا تنظیم,کمیٹی کی شکل میں ہو ہو یاپھر فیملی کی شکل میں ہو اسے چلانے کیلئے پیسوں کے آنے کا ذریعہ, ادارہ کے گارجین, اور منیجمنٹ سنبھالنے والے انچارج و دیگر کارکنان کا ہونا ضروری ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے گھر کیلئے پیسہ کمانے کی و ہیڈ آف دی فیملی یعنی گارجین شپ کی ذمہ داری مرد کو دی ہے اور عورتوں کو گھر کے دیگر امور کو انجام دینے کی ذمہ داری سونپی ہے لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہی ہیکہ اسلام نے عورتوں کو کمانے کا حق نہی دیا حقیقت کے اعتبار سے اسلام نے یہاں پر عورتوں کو تھوڑا زیادہ حق دیا ہے وہ اس طرح کی مرد کو ذمہ دار بنایا کہ تمیہیں کمانا ہے اور فیملی کا خرچ اٹھانا ہے مطلب مرد کے کندھے پر اسکی اپنی,ساتھ میں بیوی اور اس بچے کی بھی جوکہ مرد و عورت دونوں کی اولاد ہے ذمہ داری ڈالدی ہے اور عورتوں کو آپشن دیا ہے, آزادی دیا ہیکہ مرضی ہو تو گھر میں بیٹھ کر گھرکاکام سنبھالے اور آرام کرے یا چاہے تو اپنے ہنر کے ذریعہ پیسے کماکر اسکی اکیلی مالک کے طور پر اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرے (چونکہ اسکی اور اسکے بچوں کی ذمہ داری پہلے ہی مرد پر ڈالدی گئی ہے) اسکی مثال خود پیغمبر محمد کی ایک بیوی حضرت زینب ہے جوکہ چمڑے کے دباغت کے ذریعہ پیسے کماتی تھی (الاصابہ11227) اورپورے پیسے غریبوں کے بیچ و دیگر خیر کے کاموں میں استعمال کردیتی تھی ساتھ ہی اپنی ضروریات کے پیسے پیغمبر محمد سے لیتی تھی کیونکہ انکے ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری انکے شوہر پیغمبر محمد کے سرپرتھی. اسکے برعکس ویسٹ اور لیفٹ و دیگر نظریات نے عورتوں کو حقوق تو کم دیئے مگر نت نئے نعروں کے ذریعہ مرد و عورت کو ایک دوسرے کے مقابلے کھڑاکر فیمنزم و مسکولزم کے نام پرسماج میں افراتفری کا ماحول پیدا کردیا ہے (واضح ہوکہ اسلام نہ فیمنزم کو سپورٹ کرتا ہے نہ ہی مسکولزم کو کیونکہ اسلام کا صاف اصول ہیکہ مرد کا حق عورت پر اسی طرح ہے جس طرح کا عورت کا حق مرد پر )
عورتوں کو سیلف ڈیپینڈینٹ بنانے کا نعرہ لگانے والوں نے عورتوں کو سیلف ڈیپینڈینٹ تو کم بنایا زیادہ محنت مردوں کے ذہن سے گناہ اور پاپ کا ڈر اسکی نفرت نکالنے پر کیا جسکا رزلٹ یہ آیا ہیکہ ہرجگہ سیکسول ہراشمینٹ کے واقعات تیزی سے بڑھنے لگے ان سیکسول ہراشمینٹ کے واقعات میں Domestic Violence کے واقعات بھی بڑی تعداد میں موجود ہے یہاں تک کی اب عورتیں ان رشتوں کے بیچ بھی خود کو غیرمحفوظ محسوس کررہی ہے جوکہ انکی حفاظت کی ضمانت ہوتے تھے بیٹی کے ذریعہ باپ کے خلاف اور بہن کے ذریعہ بھائی کے خلاف سیکسول ہراشمینٹ کے الزامات سامنے آرہے ہیں
ان معاملات میں وہ یورپ سب سے آگے دکھائی دے رہا ہے جہاں کی عورتیں سب سے زیادہ سیلف ڈیپینڈینٹ مانی جاتی ہے. یہی وجہ ہیکہ می.ٹو مہم یورپ کے علاقے سے ہی شروع ہوتا ہوا دکھائی دیا ہے
ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہیکہ عورتوں کے حقوق,انکی آزادی اور انکی ترقی کا دروازہ سب سے پہلے اسلام نے ہی ساتوی صدی عیسوی میں کھولنے کا کام کیا تھا مگر افسوس کچھ نئے نظریات نے اسکا کریڈٹ اس یورپ کو دیدیا ہے جس نے اسلام کے ذریعہ اس کے دروازہ کھول دیئے جانے کے کئی سو سال بعد اسے قبول کر عورتوں کی آزادی اور انکے حقوق کی بات شروع کی ہے
دوسری بات یہ سامنے آئی کہ جو لوگ عورتوں کے معاملات میں Reform in Islam کی بات کرتے ہیں وہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہے کیونکہ اسلام نے پہلے ہی عورتوں کو باپ و شوہر دونوں کی پراپرٹی میں حق دیدیا ہے, عورتوں کو تعلیم و ہنر کی نہ صرف آزادی دی ہے بلکہ اسے اس پر ابھارا ہے اور مردوں کو ذمہ داری دی ہیکہ وہ عورتوں کو Educate کرے, اس نے عورتوں کو نہ صرف کمانے کا حق دیا بلکہ اسے اسکی کمائی کا اکیلا مالک بنادیا ساتھ ہی اسکی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری مرد پر ڈالدی ہے, ان تمام کے ساتھ بیٹی کو زندہ جلادینے وبیوی کی شتی کئے جانے کو بڑجرم قرار دیکر اور بیوہ عورتوں کو شادی کا حق دیکر بلکہ مردوں کو بیوہ عورت سے شادی پر ابھارکر عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔
لہٰذا حقیقت میں ضرورت Reform In Islam کی نہی Reform In Society کی ہے ساتھ ہی حکومتی سطح پر عورتوں تک انکے ان حقوق کو پہونچنے کو یقینی بنانے کی ہے۔
★نوٹ: یہ مضمون کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدراٰباد کی یونٹ نے طالبات میں تقسیم کیلئے ہینڈبل کی شکل میں شائع کرایا ہے