ووٹ دیتے وقت پانچ سال کے حالات کو سامنے رکھیں ، جذباتیت، تعصب اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر حق رائے دہی کا استعمال کریں: مفتی منظور ضیائی

  ممبئی: (ملت ٹائمز)  الیکشن کمیشن آف انڈیا نے لوک سبھا کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے جن میں کچھ انتخابات رمضان المبارک میں پڑیں گے کم ووٹنگ پڑنے کے خدشات کو لے کر مسلمانوں کے درمیان بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے اور دوسری طرف الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ترمیم و تبدیل سے صاف صاف انکار کردیا ہے ایسی صورت میں ہمیں ووٹ کی اہمیت و افادیت سے عوام کو باخبر کرنا وقت کا تقاضا ہے اور یہ واضح رہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا مفتی منظور احمد ضیائی چیر مین علم وہنر فاونڈیشن نے کیا. انہوں نے مزید کہا کہ عوام کے ووٹ سے حکومت بنتی ہے آپ کا ووٹ آپ کی طرف سے اپنے ملک،ملکی اثاثہ جات، ملک کی نظریاتی و فکری زاویےاور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری جیسی چیزوں کو امانت کے طور پر کسی کے حوالہ کرنے کے لئے آپ کا اعتماد ہوتا ہے اس لئے اپنے ووٹ کو کسی بھی طرح کی جذباتیت، کسی ذاتی مفاد، کسی برادری ازم، کسی علاقائی و لسانی تعصب کی بنیاد پر ہرگز ہرگز مت دیں بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ کر پورے شعور کے ساتھ، ہر طرح سے موازنہ کر کے اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی دیں ووٹ دینا ایک سنجیدہ نوعیت کی ذمہ داری ہے۔ جس کی حرمت غیر سنجیدہ سرگرمیوں سے ضائع کی جاتی ہے۔ ہندوستان کا ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمیں اپنے اور اپنے گھروالوں کے ووٹ کا درست استعمال کرنا چاہئے۔ اگر ہم لوگ ووٹ کا اہم استعمال سیکھ جائیں تو ووٹ کی طاقت اتنی مسلمہ ہے کہ صرف چند اہل اور قابل با صلاحیت افراد منتخب کر لئے جائیں تو قوم کا کارواں درست سمت کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ہماری قوم بہت با صلاحیت ہے خدا نے بے بہا وسائل کی نعمت سے نوازا ہے،اگر آج ہمارے اندر خرابیاں اور مسائل ہیں تو وہ اپنے عوامی نمائندوں کے انتخاب کے وقت ہمارے غلط یا جذباتی چناؤ کے باعث ہی ہیں۔ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، لہٰذا ووٹ انہیں ہی دیا جائے کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لیں گےآج عوام کی نظر میں ووٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، اس لیے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعووؤں کی دکان سجاتے ، وعدوں کا نیا جال بنتے اور عوام کو اْس میں پھنسالیتے ہیں۔تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے اور بلاشبہ بہترین طرزِ حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔ سسٹم کو گالیاں دینے، اسے کوسنے کے بجائے سسٹم کو مؤثر اور فعال بنائیں، فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیتے ہوئے سیکولر ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچاتے ہوئے جمہوری نظام میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے ہر ہندوستانی اپنا کردار ادا کرےاستعمال ہونے کے بجائے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں اور یقین کیجیے حالات ضرور بدلیں گے، بس تھوڑا خود کو بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ شرعی نقطہ نظر سے ووٹ ایک شہادت، گواہی اور رائے ہے،ووٹ دینے والا اس شخص کے متعلق جس کو وہ اپنا بیش قیمت ووٹ دے رہا ہے اس بات کی شہادت اور گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے ہر طرح لائق ہے، اور اس میں اس منصب کی قابلیت موجود ہے۔ اور یہ شخص لیاقت و قابلیت کے ساتھ ساتھ امانت دار بھی ہے۔ اگر بالفرض وہ نمائندہ اہل نہ ہو ، یا اس میں اس کام کی قابلیت و اہلیت نہ ہو ، یا وہ امانت دار نہ ہو ، اور ووٹ دینے والا ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی اگر اس کو ووٹ دیتا ہے تو گویا وہ جھوٹی شہادت اور غلط رائے دے رہا ہے،اور جھوٹی گواہی یا شہادت شریعت میں قبیح و شنیع ہے لہٰذا ووٹر حضرات کو چاہئے کہ اپنا بیش قیمت ووٹ دینے سے قبل اپنے ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی اور جمہوری حیثیت کو خوب اچھی طرح سمجھ کر کسی کو اپنا ووٹ دیں اور خود غرضی ، عارضی مفادات ، قرابت و تعلقات ، دوستانہ مراسم یا کسی کی غنڈہ گردی کے ڈر و خوف کی وجہ سے جھوٹی شہادت جیسے حرام اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور ہر گز ووٹ نہ دیں اور ووٹ دینے میں بالکل سستی و کاہلی نہ کریں تاکہ اچھے لوگ جیت سکیں۔اور غلط لوگ شکست کھا سکیں ۔