بوسنیائی جنگ: مسلم نسل کشی کا ذمہ دار جنگی مجرم کراڈچچ جیل سے کبھی باہر نہیں آئے گا

نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیائی سربوں کی قیادت کرنے والے اور جنگی مجرم راڈووان کراڈچچ کو اقوام متحدہ کی عدالت نے کوئی راحت نہیں دی۔
راڈووان کراڈچچ کے خلاف یہ مقدمہ انیس سو نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم، قتل عام کے واقعات، بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق آج تک کے سب سے بڑے مقدمات میں سے ایک تھا۔

کراڈچچ مارچ 1994 میں، بائیں، اور سربیا سے 2008 میں اپنی گرفتاری کے وقت

کراڈچچ کو ماضی میں دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا تو سنا دی تھی لیکن کراڈ چچ کی طرف سے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی تھی۔ اب اس عالمی عدالت نے نہ صرف یہ اپیل مسترد کر دی ہے بلکہ مجرم کو سنائی گئی عمر قید کی سزا میں اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔

اس موقع پر ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں قائم اس عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ راڈووان کراڈچچ کے جرائم کو مد نظر رکھا جائے تو انہیں گزشتہ فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اب پہلے سے زیادہ اور 40 سال کی جو نئی سزائے قید سنائی گئی ہے، وہ بھی دراصل بہت کم ہے۔
’ اخلاقی ذمے داری ہاں، ذاتی ذمے داری نہیں ‘
اس کے برعکس خود راڈووان کراڈچچ نے، جن کی قیادت میں بوسنیائی سرب دستے بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیائی مسلمانوں کے علاوہ بوسنیائی کروآٹ فورسز کے خلاف بھی لڑتے رہے تھے، کہا کہ وہ قریب ایک چوتھائی صدی پہلے بوسنیا کی جنگ کے دوران سریبرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام سمیت جنگی جرائم کی اخلاقی ذمے داری تو قبول کرتے ہیں لیکن ذاتی طور پر خود کو ان جنگی جرائم کا ذمے دار نہیں سمجھتے۔
کراڈچچ کی عمر اس وقت 73 برس ہے اور 40 سال قید کا مطلب ہے کہ ان کے لیے اب جیل سے زندہ باہر نکلنا ناممکن ہو گا۔ عدالت کے مطابق کراڈچچ بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا لازمی حصہ رہے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد خونریز ترین یورپی تنازعہ
بوسنیا کی جنگ 1992 سے لے کر 1995 تک جاری رہی تھی اور وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد براعظم یورپ کی سب سے ہلاکت خیز اور خونریز‍ جنگ ثابت ہوئی تھی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہوئے تھے اور کئی ملین بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
راڈووان کراڈچچ نے اپنے جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کی عدالت کے جس گزشتہ فیصلے کے خلاف یہ اپیل دائر کی تھی، وہ 2016 میں سنایا گیا تھا۔ بوسنیائی جنگ کے بعد کراڈچچ سربیا میں روپوش ہو گئے تھے اور انہیں 2008 میں سربیا ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تب وہ وہاں ایک تھیراپسٹ کے طور پر روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔
شاعر جو جنگی مجرم بن گیا
کراڈچچ کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بوسنیائی سرب سیاستدان ایک پیشہ ور ماہر نفسیات ہونے کے علاوہ ایک شاعر بھی تھے، پھر جنگ کے دوران وہ ’وارلارڈ‘ بن گئے تھے، اس کے بعد سربیا میں چھپ کر وہ کم از کم تیرہ برس تک ایک تھیراپسٹ کی زندگی گزارتے رہے تھے اور اب نسل کشی اور جنگی جرائم کے مرتکب سزا یافتہ مجرم کے طور پر وہ اپنی باقی ماندہ زندگی جیل میں گزاریں گے۔
کراڈ چچ کی سزا کی توثیق اور اس میں اضافے کے آج کے عدالتی فیصلے کی بوسنیائی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ، خاص کر سریبرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام جیسے واقعات کے ہلاک شدگان کے پسماندگان نے خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ نفرت سے بھرے ایک مجرم کو اس کے کیے کا صلہ مل گیا ہے ‘۔
بوسنیائی جنگ کے دوران سریبرینتسا میں بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے صرف ایک واقعے میں ہی جولائی 1995 میں کراڈچچ کے زیر کمان بوسنیائی سرب دستوں نے تقریباﹰ 8000 مسلمان مردوں اور نوجوان لڑکوں کا قتل عام کیا تھا۔