شمالی بہارمیں بی جے پی کو فرقہ واریت کاسہارا

منظر وپس منظر:ڈاکٹرعبدالقادرشمس
ہندوستان میں جب سے فرقہ واریت یا مذہبی اشتعال کے ذریعے بی جے پی اقتدارمیں آئی ہے اس کے بعدسے اب ملک کاکوئی خطہ ایسا نہیںبچاہے جہاں فرقہ واریت کواقتدارکی کنجی نہ سمجھاجارہاہو۔پہلے رام مندرکے نام پر شمالی ہندکے ہندی بیلٹ میں یہ کھیل کھیلاجارہاتھامگراب توطرح طرح کے عنوانات کے تحت فرقہ واریت کی آگ شمال مشرق کی ریاستوں کے جنگلوں اورپہاڑوں تک پھیل گئی ہے اورجنوب ہندکے وہ علاقے بھی اب اس کی زدمیں آگئے ہیں جن کی سیکولرزم ہی شناخت تھی۔فرقہ واریت کے پھیلتے سایے توماضی کے انتخابات میں بھی نظر آئے ہیں مگر رواں پارلیمانی انتخابات میں فرقہ واریت کازہر سماج میں اس منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایاجارہاہے جس سے محسوس ہوتاہے کہ انتخابات میں اب ترقیاتی ایجنڈاکی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے بلکہ محض ذات پات اورفرقہ واریت کی بنیاد پر الیکشن جیتے اورہرائے جارہے ہیں۔اس بات کااحساس رواں پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ شمالی بہارمیں ہورہاہے جہاں گزشتہ انتخابات میں مودی لہر کے باوجودبی جے پی یا اس کی حلیف جماعتوں کو زبردست شکست سے دوچارہوناپڑاتھا۔
بھارتیہ جنتاپارٹی نے شمالی بہارمیں فرقہ واریت کو ہوادینے کے لیے ہی اپنے فائربرانڈلیڈر اورمرکزی وزیر گری راج سنگھ کو ان کے روایتی پارلیمانی حلقہ سے دورگنگاپار بیگوسرائے کے میدان میں اتاراہے تاکہ ان کی زہربیانی سے شمالی بہارکے تمام پارلیمانی حلقوں میں ووٹوں کی فرقہ وارانہ صف بندی ہوسکے۔گری راج سنگھ جو ہمیشہ مسلمانو ںکے خلاف زہرافشانی کرتے رہے ہیں اس باربھی انہوں نے بیگوسرائے میںاپنی کامیابی کویقینی بنانے اوراپنے مدمقابل نوجوان دلوں کی دھڑکن ڈاکٹرکنہیاکمارسے مسلم رائے دہندگان کو دورکرنے کی بھرپورکوشش کی ہے اورایسے بیانات دیتے رہے ہیں تاکہ مسلمان کنہیاکمارکے مقابلے مسلم امیدوارتنویرحسن کے خیمے سے جاملیں ،اسی کے ساتھ وہ مسلم مخالف بیانات کے ذریعے شمالی بہارکے دیگرپارلیمانی حلقوں میں بھی ایسی فضابناناچاہتے ہیں تاکہ بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب کرایاجاسکے۔
شمالی بہارکے سیمانچل خطے میں بھی بی جے پی کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح فرقہ وارانہ صف بندی کرائی جائے تاکہ گزشتہ انتخابات میں جس طرح ناکامی ہوئی تھی وہی کیفیت رواں پارلیمانی انتخابی نتائج سے دیکھنے کونہ ملے۔چنانچہ چنددنوں قبل بی جے پی کے قدآورلیڈر اوربہارکے نائب وزیراعلیٰ ششیل کمارمودی نے پورنیہ لوک سبھاحلقہ میں کئی انتخابی جلسو ںسے خطاب کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کاراگ چھیڑااوردہشت گردوںوپاکستان کاذکر کرکے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ اس خطہ میں اس بارپھراگر بی جے پی کو ناکام کیاگیاتویہ خطہ آتنک وادسے متاثرہوسکتاہے۔بی جے پی کس طرح شمالی بہارکو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکناچاہتی ہے اس کاسنسنی خیزانکشاف سابق ایم پی اورارریہ لوک سبھا سے بی جے پی کے امیدوار پردیپ سنگھ کے ایک تازہ آڈیوپیغام سے ہوتاہے۔انہوں نے چنددنوں قبل پورے لوک سبھا حلقہ میں ٹیلی فون پر اپنے کارکنان کو یہ حکم دیاہے کہ پورے علاقے میں پچاس نوجوانوں کو موٹر سائیکل دے کر یہ بات پھیلائی جائے کہ ہندوﺅں کو اس علاقہ میں بچاناہے توبی جے پی کو ووٹ دو،اسی طرح آڈیوپیغام میں پردیپ سنگھ یہ بھی کہتے ہوئے نظرآرہے ہیں کہ پورے علاقے میں یہ پھیلادوکہ ان کے مدمقابل راشٹریہ جنتادل کے امیدوارسرفراز عالم ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو کہتے ہیں کہ ”دیش تیرے ٹکڑے ہوں گے“۔پردیپ سنگھ کااشارہ کنہیاکمارکی جانب ہے جو کچھ دنوں قبل رکن پارلیمنٹ سرفراز عالم کی دعوت پر سیمانچل گاندھی تسلیم الدین کی جینتی تقریب میں ارریہ آئے تھے۔ اتفاق سے یہ آڈیوٹیپ لیک ہوگیاہے جس سے بی جے پی کے ناپاک عزائم کا اظہارہورہاہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ بی جے پی آخر کیوں شمالی بہارخاص طورپر سیمانچل میں فرقہ واریت کی ہواچلاناچاہتی ہے۔

دراصل بی جے پی کو اچھی طرح یادہے کہ جب پورے دیش میں مودی لہر چل رہی تھی اورپارلیمانی انتخابات کے نتائج اس کے حق میں آرہے تھے تویہ سیمانچل ہی تھا جہاں ان کا کوئی امیدوارکامیاب نہ ہوپایاتھا،اس لیے شایدبی جے پی نے اس علاقے کو اپنا ٹارگیٹ بنارکھا ہے۔قابل غوربات یہ ہے کہ گزشہ پارلیمانی انتخابات میں اس کے سامنے راشٹریہ جنتادل اورکانگریس تھی لیکن اس بار سیمانچل کے کشن گنج لوک سبھا حلقہ سے مجلس اتحادالمسلمین کابھی امیدوارہے جن کے حوالے سے بی جے پی کو یہ کہناآسان ہوگیاہے کہ اب اس علاقے کو دہشت گردوں کاٹھکانہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کیونکہ بی جے پی کو احساس ہوگیاہے کہ اس بار مجلس کے امیدواراخترالایمان آندھی کی طرح آگے بڑھتے جارہے ہیں۔
بی جے پی کے کئی لیڈران نے کہاہے کہ سیمانچل میں ہندوﺅ ںکی حالت پاکستان میں بسنے والے ہندوﺅں جیسی ہی ہے،کیونکہ وہ خوف میں جیتے ہیں۔یہ بات گری راج سنگھ بارہاکہتے رہے ہیں اوریہی بات سال گزشتہ جب ہندوہردے سمراٹ کہے جانے والے ڈاکٹرپروین توگڑیاارریہ کے فاربس گنج آئے تھے توانہو ںنے بھی یہاں ایک نعرہ دیاتھا کہ ’ہندوﺅ ایک ہو‘۔ یادرہے کہ سال گزشتہ ارریہ لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں بھی بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے کہاتھا کہ اگر راشٹریہ جنتادل کے امیدوارسرفراز عالم کامیاب ہوئے تو یہاں آتنک وادکابول بالاہوگااوریہ علاقہ داعش کامرکز بن جائے گا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب ارریہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج سامنے آئے تھے تواس وقت ایک ویڈیووائرل ہواتھا جس میں کچھ نوجوان جیت کی خوشی میں پاکستان زندہ بادکے نعرے لگارہے تھے ،اس فرضی ویڈیوکی بنیادپر تین مسلم نوجوان کوگرفتارکرلیاگیاتھا جوبعدمیں ضمانت پر رہاہوئے۔ اسی طرح کشن گنج میں سال گزشتہ آرایس ایس کے اشارے پر ایک این جی اوچلانے والی خاتون نے کشن گنج کے مختلف علاقوں میں گائے ذبیحہ کے خلاف مہم چلاکر یہاں خاک وخون کی ہولی کھیلنے کامنصوبہ بنایاتھا مگر اس میں تووہ ناکام رہی البتہ کئی مسلمانوں کے خلاف کیس درج ہوئے اوراب تک لوگ عدالتوں کے چکرکاٹنے پر مجبورہیں۔
یہ سب دراصل اشارے ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ کس طرح ہندومسلمانوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے ،جس کا ایک ہی مقصدہے کہ یہاں ہندوﺅں کو عدم تحفظ کااحساس دلاکر ان کا پولرائزیشن کیاجاسکے اوراس کافائدہ ووٹ کی شکل میں ہو۔اسی نظریے سے ارریہ کے بی جے پی کے امیدوارپردیپ سنگھ نے پورے لوک سبھا حلقہ میں ٹیلی فون کرکے ہندومسلم تفریق کی کوشش کی ہے جس کا آڈیولیک ہوگیاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ واریت کے تمام تانے بانے کو تہس نہس کردیاجائے اوربی جے پی کے امیدوارپردیپ سنگھ کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ویسے فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کیے جانے کی کوئی کوشش سیمانچل میں کامیاب نہیں ہونے والی ہے ،کیونکہ ایک سروے کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس بار بھی پورے شمالی بہارمیں اورخاص طورپر سیمانچل میں نہ بی جے پی کو کوئی سیٹ ملنے والی ہے اورنہ ہی این ڈی اے میں شامل جنتادل یونائیٹڈکو۔