ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
راجیہ سبھا کے انتخابی نتائج آچکے ہیں،۵۷؍سیٹوں پر ہونے والے ان دوسالہ انتخابات میں بی جے پی کو ۶؍سیٹ کا فائدہ پہنچ گیاہے ،ہر چند کہ وہ ابھی تک راجیہ سبھا میں سب سے بڑی پارٹی بن کر نہیں ابھر سکی ہے لیکن کانگریس اور بی جے پی کے مابین اب صرف تین سیٹوں کا فرق رہ گیاہے۔اس انتخاب میں جہاں بی جے پی کی۶؍سیٹیں بڑھیں،وہیں کانگریس کی ۶؍سیٹیں کم ہوئیں۔۲۴۵؍رکنی راجیہ سبھامیں اب کانگریس کی ۵۸ اور بی جے پی کی ۵۵؍سیٹیں ہیں لیکن این ڈی اے کی سیٹوں میں اضافہ ہوگیا اور اس کی سیٹوں کی تعداد بڑھ کر ۷۴؍ہوگئی جب کہ یو پی اے کی ۷۱؍رہ گئی۔علاقائی پارٹیوں کی تعداد ۸۹ہے ۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اب مودی سرکار کو راجیہ سبھامیں کوئی بل پاس کرانے کے لیے بہت زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ان انتخابات میں دو چیزیں حیرت انگیز طور پر سامنے آئیں۔ایک ہریانہ میں بی جے پی کی غیرمتوقع کامیابی جہاں آزاد امید وار کی حیثیت سے زی ٹی وی کے چیرمین سبھاش چندراصرف اس لیے جیت گئے کہ کانگریس کے ۱۴؍ارکان اسمبلی نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ خراب کردیے،وہیں دوسری طرف اترپردیش میں مودی کی وزیراعظم نریندر مودی کی منظور نظر آزاد امیدوار پریتی مہاپاترابری طرح ہار گئیں اور ان کو محض اٹھارہ ووٹ ہی مل سکے۔یوپی اسمبلی میں بی جے پی کے کل ۴۱ووٹ ہیں جن کے ذریعے ان کا ایک امیدوار شیوپرتاپ شکلابآسانی کامیاب ہوسکتاتھا۔دوسرے امیدوار کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں تھے اس کے باوجود بی جے پی نے اس امید پر دوسراامیدوار کھڑاکیاکہ دوسری پارٹیوں کی کراس ووٹنگ کے ذریعے ووٹ خرید کر وہ اپنے امیدوار کو کامیاب کرالے جائیں گے۔لیکن ایسانہیں ہوسکا،اس کے برعکس کپل سبل بھی حالانکہ جیت تو گئے لیکن ان کو توقع سے بہت کم ووٹ ملے۔اترپردیش اسمبلی میں کانگریس کے ۲۹؍ارکان اسمبلی ہیں ،اس کے علاوہ اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کے چار ارکان ڈاکٹر ایوب کی پارٹی کے چار ارکان اور بی ایس پی کے کچھ ارکان کی مدد سے کپل سبل کو اپنی جیت کی امید تھی ۔اس طرح ان کے کل ووٹ ۴۰؍کے قریب ہونے چاہئیں تھے لیکن انھیں محض ۲۵؍ووٹ ملے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم ۱۱؍کانگریس کے ارکان نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یوپی وہریانہ میں غیر متوقع نتائج کے آنے میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں ریاستوں میں کانگریسی ارکان اسمبلی نے اپنے امیدوار کے خلاف ووٹ کیا۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اس سے قبل اروناچل پردیش ،اتراکھنڈ اور آسام میں کانگریس کے بڑے لیڈروں نے پارٹی سے دغاکرکے بی جے پی کا ہاتھ تھاماتھا۔ہریانہ میں سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈاکی تحریک پر ۱۴؍ارکان اسمبلی نے قلم بدل کر اپنے ووٹوں کو ناکارہ کیاگویاکانگریس مکت بھارت کی طرف بڑھنے کی بی جے پی کی حکمت عملی ابھی جاری ہے ۔
ان انتخابات نے ۲۰۱۷میں ہونے والے اترپردیش انتخابات کی راہ بھی متعین کردی ہے۔انتخاب کے فورابعد سیاسی سطح پر دوبڑے واقعات سامنے آئے۔ایک تو الٰہ آباد میں ہونے والابھارتیہ جنتاپارٹی کی قومی عاملہ کا اجلاس جس میں وزیراعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ ایک ہی سر میں بولتے دکھائی دیے۔دوسری جانب کانگریس نے بھی اگلے ہی دن اترپردیش میں انتخابات کی کمان پرانے انتخابی کھلاڑی غلام نبی آزاد کے ہاتھوں سونپ دی۔غلام نبی آزاد کی شخصیت ان معنوں میں معروف ہے کہ وہ مشکل ترین حالات میں پارٹی کی نیاکو پار لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اب پرشانت کشور اور غلام نبی آزاد مل کر اترپردیش میں کانگریس کی نیاکو کتناپار لگاتے ہیں یہ دیکھناباقی ہے۔بی جے پی نے اپنے اجلاس میں یہ اعلان کیاہے کہ رام مندر ان کا انتخابی مدعانہیں ہوگا۔اس کے برعکس وہ ریاست میں سماج وادی پارٹی سرکار کی ناکامیوں ،بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور ترقی وتعمیر کے ایشو پر بھی الیکشن لڑیں گے ،اس کے علاوہ مودی سرکار کی حصولیابیوں کو بھی عوام کے درمیان عام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔پارٹی کے ریاستی صدر کا کہناہے کہ وہ مذہبی بنیادوں پر ووٹوں کی تقسیم کی کوئی کوشش نہیں کریں گے ،لیکن مغربی اترپردیش کے جاٹ لیڈر اور کیرانہ سے ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ کسی اور ہی جانب اشارہ کررہے ہیں۔وہ پچھلے کئی مہینوں سے ایک فہرست لیے گھوم رہے ہیں کہ کیرانہ کے قصبے بساتیان سے ۳۴۶؍لوگوں نے مسلمانوں کے خوف سے ہجرت کر لی ہے ،یہ کہہ کر وہ اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ مظفر نگر کو کشمیر بنایاجارہاہے۔گویامسلم علاقوں سے ہندوؤں کو ہجرت کرنے کے لیے بزورزبردستی مجبور کیاجارہاہے۔ابتدائی تحقیقات میں ان کے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیاہے۔ان کی فراہم کردہ فہرست میں ۲۰؍لوگ پہلے سے ہی مرچکے ہیں ،بقیہ لوگ تلاش معاش کی غرض سے آس پاس کے شہروں میں مقیم ہوگئے ہیں۔اترپردیش سمیت پورے ملک میں اس قسم کی ہجرتیں بلالحاظ مذہب وملت بہت عام ہیں لیکن حکم سنگھ کا اس خاص موقعے پر اس معاملے کو طول دینااور پھر بی جے پی کے صدر امت شاہ کا مرکزی عاملہ اس معاملے کو اٹھانااس جانب واضح اشارہ کررہاہے کہ ترقی وبہبود کے ایجنڈاکے نیچے فرقہ وارانہ تقسیم کا ایجنڈا بھی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔رام مندر کو بھلے ہی ایشو نہ بنایاجائے لیکن دوسرے عنوانات سے ہندوتفاخر وتحفظ کو پوری ریاست میں مدعابنایاجائے گا۔یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح ۲۰۱۴کے لوک سبھاانتخابات میں نریندر مودی کا چہرہ تو ہندوتفاخر کی علامت کے طور پر پیش کیاگیالیکن ان کی زبان ترقی وفلاح کی بات کرتی رہی۔یہ حالات صاف بتارہے ہیں کہ اترپردیش کے آئندہ انتخابی خطوط کیاہوں گے۔ایک طرف بی جے پی اپنے فرقہ وارانہ موقف پر قائم رہے گی ،دوسری جانب کانگریس اپنے ماہر کھلاڑیوں کی مدد سے اپنی سیٹوں میں اضافے کی کوشش کرے گی ۔تیسری جانب سماج وادی پارٹی رام مندر کے مدعے کی عدم موجودگی میں انھیں بی جے پی کے راہنماؤں کے ساتھ ساز باز کرکے دوبارہ سرکار بنانے کی کوشش کرے گی اور ان سب کا ایک مقصد مشترکہ ہے۔اترپردیش کے مسلم ووٹوں میں زبردست کنفیوژن پیداکرکے انھیں بے تحاشاتقسیم کرنااور دوسرے وہاں پر موجود دلت قوت بی ایس پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا۔کیوں کہ بی جے پی کسی دلت قیادت کو ملک میں ابھرنے کا موقع نہیں دیناچاہتی۔اترپردیش کے موجودہ حالات یہ ہیں کہ عام طور پر لوگ سماج وادی پارٹی کی حکومت سے ناراض ہیں ،روز افزوں غنڈہ گردی نے اس پارٹی پر لگے پرانے الزامات کی تجدید کردی ہے ۔ادھر مسلمان بھی سماج وادی پارٹی سے ناراض نظر آتھے ہیں۔اعظم خان پارٹی میں محبوس ہیں اور پارٹی قیادت مسلم مخالف چہروں کو فوقیت دے رہی ہے ۔اسی کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اضافہ ہواہے اور مسلمانوں کو یکساں ترقی کے مواقع حاصل نہیں ہوئے ۔ایسے میں پارٹی لیڈر ملائم سنگھ یادو کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہوگیاکہ ۲۰۱۲کی طرح اس بار انھیں یکطرفہ مسلم ووٹ نہیں ملے گا،ظاہر ہے ان کی نظر دوسرے ووٹوں کی طرف بھی ہوگی۔مسلم ووٹوں کا رجحان بی ایس پی کی طرف ہوسکتاہے یہ خطرہ بھی ہر پارٹی کو لاحق ہے۔ایسے میں بی ایس پی کا اترپردیش میں برسراقتدار آجاناکوئی غیرمعمولی بات نہیں ہوگی اور اسی خطرے کو ٹالنے کے لیے بی جے پی اور بی ایس پی باہمی انتخابی حکمت عملی پر عمل کرناچاہتی ہے ۔اس کے لیے سب سے آسان نسخہ یہی ہوسکتاہے کہ ایک طرف مسلم ووٹ تقسیم ہوجائے اور دوسری طرف اترپردیش کا جاٹ ووٹ بی جے پی کی جانب اکٹھاہوجائے ۔ریاست میں جاٹ ووٹ بے حد اہمیت کے حامل رہے ہیں۔مغربی اترپردیش کے ۲۲؍ضلعوں میں جاٹ اور مسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں،جن کی قیادت ماضی میں چودھری چرن سنگھ اور حال کے دنوں چودھری اجیت سنگھ کرتے رہے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اترپردیش کی سیاست کے خطوط ہمیشہ ہی جاٹ اور مسلمانوں کے مشترکہ ووٹ طے کرتے رہے ہیں ۔یہ تجربہ ۱۹۷۱میں مسلم مجلس کے صدر ڈاکٹر فریدی اور چودھری چرن سنگھ نے مل کر کیاتھا ۔دراصل مخلوط سیاست کی داغ بیل آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ انھیں دولیڈروں نے ڈالی تھی اور تب سے ۲۰۱۴تک جاٹ اور مسلم ووٹوں کا اتحاد ریاست کی سیاست پر غالب رہا۔جس نے چودھری چرن سنگھ کو وزیر اعظم اور اجیت سنگھ کو وزیر اعلیٰ تک بنادیا۔مگر ۲۰۱۳مظفر نگر فسادات نے اس اتحاد کو بری طرح توڑ ڈالا۔خود چودھری اجیت سنگھ کی سیاست کو بھی تقریبا دفن کرڈالا۔جاٹ ووٹ فطری طور پر نہ تو مایاوتی کی طرف جھک سکتاہے اور نہ سماج وادی پارٹی کی طرف ۔کانگریس کا ریاست میں وجود بہت کمزور ہے ایسے میں جاٹ ووٹ نے بی جے پی کی طرف رخ کرلیاہے اور اس کی قیادت حکم سنگھ کرنا چاہتے ہیں۔بی جے پی کی بھی مجبور ی ہے کہ وہ ریاست کی سیاست میں جاٹ قیادت کو اہمیت دیں۔یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۳ سے ہی بی جے پی نے ان ضلعوں کو نشانہ بنایاہے جہاں جاٹ اور مسلمانوں کی اکثریت ہے۔مظفر نگر فسادات اسی کا شاخسانہ تھا۔دادری میں محمداخلاق کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور کیرانہ میں ہندوؤں کی ہجرت کابہانہ بھی اسی غرض سے ہے۔بی جے پی ریاست کی کمان راج ناتھ سنگھ کی صورت میں ٹھاکر کو دے چکی ہے ،کلیان سنگھ کی صورت میں پسماندہ طبقات کو بھی دے چکی ہے ،کوئی بڑادلت لیڈر پارٹی میں موجود نہیں ہے ،ایسے میں پارٹی کے سامنے دوہی متبال ہے ۔یاتو کسی پنڈت کو چہرہ بنائے یاپھر کسی جاٹ کو موقع دے ۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے حالیہ اجلاس میں جہاں پارٹی کے وزیراعلیٰ کا چہرہ طے کیاجاناتھاوہاں ابھی تک کوئی نام طے نہیں کیاجاسکا۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ نومبر کے مہینے تک پارٹی کو اپناوزیراعلیٰ کا امیدوار طے کرناہے ۔ جاٹ قیادت کے تین دعویدار ہیں۔ سنگیت سوم، سنجیو بالیان اور حکم سنگھ پہلے دو کو مظفر نگر فسادات کا انعام وزارت کی صورت میں مل چکا ہے اب حکم سنگھ اپنا حصہ وصولنے کے فراق میں ہیں ایسے میں اپنا سیاسی قد بلند کر کے وہ خود کو ریاست کے اگلے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے بطور پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اس کے لیے یہ ضروری ہوگاکہ وہ مغربی اترپردیش کے ماحول کو ہر وقت گرم رکھے اور یہی کیاجارہاہے۔
سیاسی پارٹیوں کی حکمت عملیاں تقریباواضح ہیں۔سمجھدار قوموں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اگر اپنی حکمت عملی کو کامیاب بناناچاہتے ہیں تو مخالف کی حکمت عملی کا بغور مشاہد کریں اور ان کے خطوط ایک بار سمجھ میں آجانے کے بعد اس کے تدارک کی حکمت طے کریں۔اترپردیش کی ۱۰۰؍سے زائد سیٹوں پر مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں،ایسے میں مسلمان اگر سمجھداری سے کام لیں تو بیٹ انھیں کے ہاتھ میں ہوسکتاہے اور وہ بی جے پی وسماج وادی پارٹی کی اس ناپاک حکمت عملی کو بآسانی ناکام بناسکتے ہیں۔اس کے لیے ان کے پاس دوہی طریقے ہیں۔ایک تو یہ کہ وہ اپناایک متحدہ محاذ بناکر کھڑے ہوجائیں اور آئندہ دس مہینوں میں اپنے عملی اتحاد کا مظاہرہ کریں ۔اس غرض سے مسلمانوں کے قابل ذکر بڑے لیڈر پہل کریں اور ایک ناقابل تسخیر اتحاد قائم کرکے اترپردیش کے کسی متوقع اتحاد کا حصہ بن جائیں اور اگر ایساممکن نہ ہوتو پوری ریاست میں متحدہ طور پر بی ایس پی کے حق میں ووٹ کرکے مایا وتی کے نام کا زہر پی لیں ،ایساکرنے سے پہلی صورت میں مسلمانوں کی بحیثیت امت نمائندگی اسمبلی میں طے ہوجائے گی جو لوک سبھاانتخابات پر بھی اثر اندازہوگی اور ۲۰۱۹میں دوبارہ بی جے پی کے جیتنے کا خواب بھی ٹوٹ جائے گااور اگر دوسری صورت اختیار کی گئی تو ملک کی سب سے بڑی دلت قوت کو کامیاب کرکے بھی اعلیٰ ذات برہمنوں کی سازش کو ناکام بناکر ملک میں دلت اور مسلم اتحاد کے فروغ میں نمایاں رول انجام دیاجاسکتاہے۔کانگریس مکت اور مسلم مکت بھارت کا خواب دیکھنے والوں کے منہ پر اسی طرح ایک بھرپور طمانچہ رسید کیاجاسکتاہے۔(ملت ٹائمز)