سہیل انجم
سپریم کورٹ نے بلقیس یعقوب رسول کے کیس میں جو فیصلہ سنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے لیے عدالت عظمیٰ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ فیصلہ یقیناً ایک نظیر بنے گا اور اس نوعیت کے دوسرے مقدمات میں اس کی مثال پیش کی جائے گی۔ لیکن سپریم کورٹ سے کہیں زیادہ تعریف و ستائش کی مستحق اگر کوئی ہے تو وہ بلقیس بانو ہیں۔ اگر انھوں نے برعکس حالات کے باوجود انتہائی جرا ¿ت و حوصلے سے کام نہ لیا ہوتا تو ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ اس عدیم المثال فیصلے سے محروم رہ جاتی۔ بلقیس کے ساتھ ساتھ ان کے شوہر یعقوب رسول بھی ستائش کے مستحق ہیں جو اپنی مظلوم بیوی کو انصاف دلانے کے لیے ان کے ساتھ چٹان کی مانند کھڑے رہے اور قدم قدم پر ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ بڑی ناسپاسی ہوگی اگر ان کے ساتھ کھڑے رہنے والے ان لوگوں کو خراج تحسین پیش نہ کیا جائے جنھوں نے اس ۷۱ سالہ قانونی جنگ میں ان کی ہر طرح مدد کی۔ بلقیس کی وکیل شوبھا ایڈووکیٹ، فرح نقوی، گگن سیٹھی، مادھوی ککریجہ، دیپتا بھوگ، مالنی گھوش، ہما خان اور ان جیسے بے شمار افراد ہیں جو اس جنگ میں بلقیس کے دوش بہ دوش رہے اور جنھوں نے اس لڑائی کو اپنی لڑائی سمجھا۔
وہ قارئین جو اس معاملے سے واقف نہیں ہیں سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ماجرا کیا ہے اور بلقیس یعقوب رسول کون ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کون سا فیصلہ سنا دیا ہے جس کی اتنی ستائش کی جا رہی ہے۔ تو سنیے! بلقیس بانو ۲۰۰۲ءکے گجرات فسادات کی ایک انتہائی مظلوم کردار ہیں۔ ۸۲ فروری ۲۰۰۲ء کو سابرمتی ایکسپریس میں پراسرار آتش زدگی کے بعد جب مسلمانوں کے خلاف بھیانک ترین فساد چھیڑ دیا گیا تو بے شمار خاندانوں کی مانند بلقیس کا خاندان بھی جائے پناہ کے لیے در در بھٹکنے لگا۔ کبھی کسی گاؤں میں پناہ لیتا تو کبھی کسی ہندو خاندان کے رحم و کرم پر زندگی گزارتا۔ کبھی کسی مسجد میں پناہ ڈھونڈتا تو کبھی کہیں اور۔ تین اپریل کو ان کا خاندان ایک ٹرک میں سوار ہو کر جائے پناہ کی تلاش میں تھا کہ داہود ضلع میں فسادیوں نے ٹرک کو روک لیا۔ انھوں نے وحشت و بربریت کا رقص برہنہ شروع کر دیا۔ بلقیس کی نگاہوں کے سامنے ان کے گھر کے ۴۱ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ مقتولین میں ان کی تین سالہ بیٹی صالحہ بھی تھی جس کاسر ایک پتھر پر پٹخ پٹخ کر اس معصوم بچی کو ہلاک کیا گیا۔ درندوں کو اس پر بھی چین نہیں آیا۔ انھوں نے ۱۹ سالہ بلقیس کو جو کہ پانچ ماہ کے حمل سے تھیں اپنی ہوس کا شکار بنا لیا۔ ان کے وہ پڑوسی جن کو وہ بچپن سے ہی دیکھتی اور جن سے باتیں کرتی رہی ہیں یکے بعد دیگرے ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ ان سے رحم کی بھیک مانگتی رہیں مگر درندوں کو کہیں رحم آتا ہے۔ وہ بے ہوش ہو گئیں۔ تین گھنٹے کے بعد ہوش آتا تو انھوں نے اپنے چاروں طرف اپنے ہی عزیزوں کی لاشیں دیکھیں۔ خود کو بالکل برہنہ پایا۔ خون سے سنا ہوا ان کا پیٹی کوٹ نظر آیا۔ اس سے انھوں نے اپنے جسم کو ڈھانپا۔ وہ دن اور رات انھوں نے ایک غار میں گزاری۔ اگلے روز ایک قبائلی گاؤں کے لوگوں نے انھیں بلاوز اور اسکارف دیا جس سے انھوں نے ستر پوشی کی۔ ان کو ایک پولیس جیپ نظر آئی اور وہ اس سے تھانے گئیں۔ قتل اور اجتماعی آبروریزی کی رپورٹ لکھوائی۔ لیکن پولیس والوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ان کے ان پڑھ ہونے کا فائدہ اٹھایا اور کچھ کا کچھ لکھ دیا۔ کیس عدالت میں گیا۔ پولیس نے کہا کہ ان کے بیان میں تضاد ہے۔ مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کر دیا۔
لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انھوں نے قومی انسانی حقوق کمیشن سے رابطہ قائم کیا۔ اس نے ان کی مدد کی۔ از سر نو کیس قائم ہوا۔ سی بی آئی نے معاملے کی جانچ کی۔ جنگ جاری رہی۔ مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ مجرموں کو سزا دی اور قصور وار پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کی۔ گجرات حکومت نے ان کو پانچ لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اس حقیر رقم کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی کی جو بھیانک داستان رقم کی گئی ہے اس کے پیش نظر یہ معاوضہ باعث ندامت ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی کہ وہ بلقیس کو پچاس لاکھ روپے دے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمت دے اور رہنے کے لیے گھر دے۔ اس فیصلے پر دو ماہ کے اندر عمل درآمد ہو جانا چاہیے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا فیصلہ ہے جب فساد سے متعلق ریپ کے کیس میں کسی کو معاوضہ دیا گیا ہو اور وہ بھی اتنی خطیر رقم کے ساتھ۔ بلقیس نے درست کہا تھا کہ معاوضہ ایسا ہو کہ مثال بنے اور آگے کوئی بھی حکومت کسی کے ساتھ اس قسم کی حیوانیت کی اجازت نہ دے۔
۳۲ اپریل کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا اور ۴۲ اپریل کو بلقیس اور ان کے شوہر یعقوب رسول نے دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس کے لیے سہ پہر تین بجے کا وقت دیا گیا۔ راقم الحروف تین بج کر پانچ منٹ پر پہنچا تو کہیں تِل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ایسی پرہجوم پریس کانفرنس بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ گیلری تک بھری ہوئی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ خاتون صحافیوں کی تعداد بھی مرد صحافیوں سے کم نہیں تھی۔ اس پریس کانفرنس میں صرف صحافی ہی نہیں تھے بلکہ انسانی حقوق کی لڑائی لڑنے والے سینئر کارکن بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھ ان کی وکیل اور ا س جنگ میں شریک کارکنان بھی موجود تھے۔ بلقیس نے بڑی جرا ¿ت مندی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ سوالوں کے جواب دیے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو پچاس لاکھ روپے، ملازمت اور گھر مل رہا ہے کیا آپ مطمئن ہیں یا آپ کو اور بھی کچھ چاہیے تو انھوں نے برجستہ کہا کہ مجھے اور میرے گھر والوں کو زندگی چاہیے۔ اس سے قبل جب عدالت نے مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی تو ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ ان کے لیے سزائے موت چاہتی ہیں تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے انتقام نہیں انصاف چاہیے۔ اسی طرح مذکورہ پریس کانفرنس میں بھی انھوں نے بڑی بیباکی کے ساتھ اپنی بات رکھی۔ یہ جرأت اور یہ حوصلہ یوں ہی نہیں آجاتا۔ جب کوئی مظلوم ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ٹھان لیتا ہے اور اپنے سامنے آنے والی ہمالہ جیسی رکاوٹوں کو بھی معمولی رکاوٹ سمجھ لیتا ہے تو وہ ہر قسم کے خوف و ہراس سے مبرا ہو جاتا ہے اور اسی حوصلہ مندی کا ثبوت دیتا ہے۔
بلقیس نے بڑی درد انگیزی اور دلسوزی کے ساتھ اپنی تین سالہ معصوم صالحہ کا ذکر کیا اور کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ اسے قبر ملی بھی یا نہیں۔ وہ کہاں جا کر ان کی قبر تلاش کریں اور ان کے لیے دعا کریں۔ وہ صالحہ کے لیے آج بھی تڑپتی ہیں۔ وہ لوگ اس کی تدفین کا فریضہ انجام دینے سے محروم رہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پچاس لاکھ روپے بہت بڑی رقم ہوتی ہے وہ اس کا کیا کریں گی تو انھوں نے علی الاعلان کہا کہ وہ اس سے ایک فنڈ قائم کریں گی اور اپنی جیسی مظلوم خواتین کی مدد کریں گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بلقیس کسی دولت مند خاندان کی فرد نہیں ہیں۔ وہ انتہائی مفلوک الحالی کی زندگی جی رہی ہیں۔ ایک کمرے کے گھر میں رہتی ہیں اور کسی طرح اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کا انتظام کرتی ہیں۔ پچاس لاکھ کی رقم ان کے لیے یقیناً بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن انھوں نے اس سے فنڈ قائم کرنے کا اعلان کرکے دکھی انسانیت کے مداوا کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس کے لیے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے۔
بلقیس کی اس جرأت آموز داستان نے جانے کتنے تاریک دلوں میں اجالا کیا ہے اور جانے کتنوں کو انصاف کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ ایسے میں جانے کیوں ہمارا ذہن سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی جانب چلا گیا اور یہ سوچنے لگا کہ بلقیس بھی ایک خاتون ہے اور پرگیہ بھی ایک خاتون ہے۔ مگر دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک دکھی انسانیت کے درد کا درماں ہے تو دوسرا انسانیت کی پیشانی پر ”دہشت گردی“ کا داغ ہے۔ ایک نے انسانیت کو سربلند کیا ہے تو دوسرے نے اس کا سر جھکا دیا ہے۔ ایک انسانیت کا قیمتی سرمایہ ہے تو دوسرا ننگ انسانیت ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com