ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
یکم مئی کو ہر سال یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس موقع پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کی حالت میں بہتری کےلیے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں لیکن اس دن کے گزرنے کے ساتھ ہی خاموشی چھا جاتی ہے، کوئی وعدہ وفا نہیں ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف جمیلؔ مظہری نے اشارہ کیا ہے کہ مزدور کی دنیا کالی ہی رہتی ہے۔
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
یہ کون نہیں جانتاکہ ملک کی تعمیر و ترقی اور شہروں کی چکا چوند میں سب سے بڑا حصہ مزدوروں کا ہوتا ہے۔ سرد ہو کہ گرم، چلچلاتی دھوپ ہو کہ شدت کی سرد ی، تیز بارش ہوکہ آندھی اور طوفان، کوئی بھی موسم ہو مزدور نہ رکتا ہے اور نہ ہی تھکتا ہے۔ اگر مزدور نہ ہوں تو یہ بڑ ے بڑے پل، سڑکیں، سرنگیں ، فلائی اور بلند و بالا عمارتیں، خوبصورت ٹاور اور تاریخ کا حصہ بنی یادگاریں ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس لئے مزدوروں کی وفاداری اور جذبے کا احترام ہونا چاہئے مگر ہوتا ہے اس کے برعکس ۔سب سے زیادہ استحصال اور زیادتی اگر کسی طبقہ پر ہوتی ہے تو وہ یہی طبقہ ہے، ان کی شکایتوں کا مداوا کرنے کی طرف حکومتوں نے توجہ دی ہوتی تو آج ان کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ یہ سچ ہےکہ ہولی ہوکہ دیوالی، عید ہو کہ کرسمس مزدور کی دنیا تاریک ہی رہتی ہے۔
عام انتخابات ۲۰۱۹ء کے چار مراحل مکمل ہوچکے ہیں، تشہیری مہمات کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہےکہ سیاسی جماعتوں نے مزدورں کے مسائل کو اہمیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہےکہ کھیت کھلیان، شہر، دیہات، گھروں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کوئی ان کے حقوق کی بات کرنے والا نہیں ہے۔دیکھا جائے توکانگریس سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے بےروزگاری پر گھیرنے کے باوجود بی جے پی کھل کربات نہیں کر رہی ہے، اس کے ایجنڈے میں صرف دیش بھکتی ہی سب سے اوپر ہے۔ تاہم کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے اپنے کئی اجلاس میں حکومت کونشانہ بنایا۔ یہ ایک ایسا موضوع تھا جس سے ہر آدمی نبر آزما ہے۔ خاص طور پر نوٹ بندی کے بعد سے چھو ٹے اور بڑے کاروباری کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ بھی کاموں کے ختم ہونےسے اتنا ہی پریشان ہے۔ کارخانوں کے بند ہوجانے سے ہزاروں مزدور اچانک سڑکوں پر آگئے۔دوسری طرف مہنگائی کی مار اور منریگا سمیت کئی اسکیموں کے تحت ملنے والی مزدوری میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ ان حالات میں وہ کہاں جائیں یہ اہم سوال ہے۔
پچھلے ماہ بزنس اسٹینڈرڈ نے نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی اس کے مطابق گزشتہ ۴۵؍ سال میں سب سے زیادہ بے روزگاری ریکارڈ کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہےکہ مودی حکومت کے ذریعہ ۲۰۱۶ء میں نوٹ بندی کے اعلان کے بعد بے روزگاری کے تعلق سے یہ پہلا سروے ہے۔ اس سروے کے لئے ڈیٹا جولائی ۲۰۱۷ء سے جون۲۰۱۸ء کے بیچ لئے گئے ہیں۔ بزنس اسٹینڈرڈ کے ذریعہ جن دستاویزات کا ریویو کیا گیا، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ۱۹۷۲ ۔ ۷۳ء کے بعد سے یہ اب تک کی بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ہریانہ، آسام، جھارکھنڈ، کیرالہ، اڑیسہ، اتراکھنڈ اور بہار میں ۱۲ ـ ۲۰۱۱ء کی طرح بےروزگاری کی شرح ۱۸ ـ ۲۰۱۷ء میں بھی قومی اوسط سے زیادہ رہی ہے۔ جبکہ تمام اہم ریاستوں میں گجرات میں بےروزگاری کی شرح سب سے تیزی سے بڑھی ہے۔بی جے پی حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہر سال ۲؍کروڑ لوگوں کو روزگار دیا جائے گا۔ مگر نوکری ملنا تو نوکری اور روزگار ختم کیے جارہےہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کے بقول اس وقت ہندوستان میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد ۶۵؍ ملین ہو چکی ہے۔
اس کے باوجود عام انتخابات میں بے روزگاری اہم مدعا نہیں بن سکا۔ صرف پلوامہ دہشت گردانہ حملہ میں ہندوستانی جوانوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر فضائیہ کےحملے پر مودی حکومت اپنا سینہ فخر سے اونچا کرتی رہی۔ ہر چناوی اجلاس میں وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ سمیت بھاجپا کے دوسرے لیڈران بھی پلوامہ کےشہیدوں کے نام پر ووٹ مانگتے رہے۔دہشت گردی اور نکسل واد کے خاتمے کی بات کرکے عوام کو گمراہ کیا جاتا رہا ۔ اس دوران نکسلیوں نے دو بڑے حملے کیے جس میں بڑی تعداد میں جوان مارے گئے مگر میڈیا کی مہربانی سے یہ دونوں حملے کسی حد تک دبادیئے گئے ۔ہندو ووٹ متاثر نہ ہو اس لئے گانگریس اور دوسری پارٹیوں نے بھی نکسل دہشت گردی پر اپنی زبان بند رکھی۔
عام انتخابات کے پہلے مرحلہ ۱۱؍اپریل سے ٹھیک ایک روز قبل چھتیس گڑھ میں بارودی سرنگ کے دھماکے میںبی جے پی کے رکن اسمبلی اور پانچ سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی الیکشن کی مہم کے آخری د ن بستر پارلیمانی حلقے میں میٹنگ میں شرکت کے بعد واپس جا رہے تھے کہ راستے میں نکسلیوں نے بارودی سرنگ سے دھماکہ کر کے ان کی گاڑی کو اڑا دیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ بی جے پی رہنما کی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ ہلاک شدگان کے اعضاءکے ٹکڑے دور تک بکھر گئے۔ دوسرا بڑا حملہ یکم مئی ۲۰۱۹ء کو مہاراشٹر کے گڑھ چرولی میں پیش آیا جہاں نکسلیوں نے پولیس کی دو گاڑیوں کو آئی ای ڈی دھماکہ کے ذریعہ اڑا دیا، اس حملہ میں بھی۱۶؍سے زیادہ جوان شہید ہو گئے، جبکہ گاڑی چلا رہے ایک ڈرائیور کی بھی موت ہو گئی۔ تقریباً ۲۵؍ جوان دوگاڑیوں میںسوار ہوکر گشت کے لئے نکلے تھےکہ نکسلیوں نے گھات لگا کر آئی ای ڈی دھماکہ کردیا۔
سوال یہ ہےکہ حکومت کے ہزار دعوے کے باوجود نکسلی حملے کیوں ہو رہے ہیں۔؟ ۲۰۱۴ء میں مودی کی قیادت میں جب بی جے پی کی حکومت بنی تھی توجہاں بڑے بڑے وعدے کیے گئے تھے،ان میں ایک یہ بھی تھاکہ ملک دہشت گردی اور نکسل واد سے آزاد ہو جائے گا۔ لکھنؤ میں ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ۲۰۲۲ء تک ہم جس نئے ہندوستان کا خواب دیکھ رہے ہیں اس میں دہشت گردی اور نکسل واد کا خاتمہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی حکومت کا مقصد عام لوگوں کی خواہشات کی تکمیل، ملک کے عزت و وقار میں اضافہ اور آخری قطار میں شامل شخص کی خوشحالی ہے۔اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ وہ کس کی خوشحالی اورکس ملک کے عزت و قار کی بات کر رہے ہیں۔ کیا دہشت گردی اور نکسل واد ختم ہوگئے ہیں،اگر نہیں تو پھر کس بنیاد پر آپ کو دوبارہ ملک کی باگ ڈور سونپی جائے۔پانچ سال میں آپ نے کتنے وعدے پورے کیے؟ جس ملک میں عام شہری محفوظ نہ ہو، نوجوان کیلئے کو نوکری نہیں ہو، بے روزگاری کے مسائل بڑھتے جا رہے ہوں اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہو، اس ملک کا شہری عزت و وقار کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in