ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
۱۹؍مئی کو ہونے والےلوک سبھا کے آخری مرحلے کے انتخابات سے قبل سیاسی معرکہ آرائی تیز ہو گئی ہے۔اسی مرحلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں بھی ووٹنگ ہونی ہے اس لئے وارنسی سب سے زیادہ انتخابی تشہیر کا مرکز بنا ہواہے۔ اس سیٹ پر کانگریس پارٹی کے لیڈر اجے رائے اور ایس پی۔بی ایس پی اتحاد کی امیدوار شالنی یادو سمیت تقریبا۲۶؍ امیدوار پارلیمنٹ پہنچنے کے لئے اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ وارانسی سیٹ سے پی ایم مودی انتخابی میدان میں ہیں جس کا اثر اطراف کی سیٹوں پرپڑنا یقینی ہے ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا وقار بھی داو پر ہے۔آخری مرحلہ میں تمام سیاسی جماعتوں نے باقی ماندہ پارلیمانی حلقوں کی تشہیری مہم کیلئے اپنی طاقت جھونک دی ہے۔
غور کریں تواس بار ویسے مغربی بنگال شروع سے ہی سیاسی اکھاڑہ بنا رہا ،مگر گزرتے ایام کے ساتھ یہاں کا سیاسی پارہ اور زیادہ گرماتا جارہا ہے۔خاص طور پر بی جے پی اور برسر اقتدار ٹی ایم سی کے درمیان سیاست کی یہ لڑائی پرتشدد ہو تی جا رہی ہے۔ظاہر ہے اس کیلئے کسی ایک پارٹی کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے لیکن مرکز میں برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کی تلملاہٹ،نریندر مودی اور امت شاہ کی ساری توجہ مغربی بنگال پر مرکوز ہونے سے سیاست کے گلیاروں میں مختلف قسم کی چے می گوئیوں کا دور شروع ہے۔ کسی کا کہنا ہےکہ مودی بٹالین کو شاید یہ اندازہ ہوچلا ہےکہ اب دوبارہ اقتدار میںان کی واپسی ممکن نہیں، اس لئے از خود وزیر اعظم مودی دبے لفظوں میں اتحاد کی بھی بات کرنے لگے ہیں۔اس شبہ کو تقویت ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ بی جے پی کی طرف سے اب تک کئی انتخابی نعرےتبدیل ہو چکے ہیں۔سب سے پہلے پارٹی نے ’مودی ہے تو ممکن ہے ‘ کا نعرہ دیا،اس کے بعد ’پھرایک بارمودی سرکار اور اب آج کل دونوں نعروں کو بدل کر’ پھر ایک بار بھاجپا سرکار‘ کردیا گیاہے۔تجزیہ نگاروںکاخیال ہےکہ بی جے پی کا تیزی سے تبدیل ہوتا سلوگون اس بات کا پیش خیمہ ہےکہ واقعی لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کشتی ڈوب رہی ہے اور بقول بی ایس پی سربراہ مایاوتی کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
یو پی او ر بہار سمیت کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں سے بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگنے کی بات کہی جا رہی ہے،ویسے اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی،اصل فیصلہ ۲۳؍مئی کو ہوگا،اس لئے ہمیں فیصلے کی اس گھڑی کا انتظار کرنا چاہئے۔تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے جس طرح کے اٹانگ پٹانگ بیانات سامنے آرہے ہیں، جن کی سوشل میڈیا سمیت عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی خوب کھلی اڑائی جا رہی ہے۔مودی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بادلوں اور بارش کی وجہ سے ہندوستان کے جنگی طیارے پاکستان کے ریڈار سے بچ جائیں گے اور اسی لیے انھوں نے ايئر سٹرائک کی اجازت دے دی۔اس پر کانگریس صدرراہل گاندھی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اچھا مودی جی جب ہندوستان میں بارش ہوتی ہے اور آندھی طوفان آتا ہے تو کیا پورے ہوائی جہاز ریڈار سے باہر ہو جاتے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ آپ نےآم کھانا ملک کے لوگوں کو سکھا دیا، مگر یہ تو بتا دیجئے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ملک کے کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کے لئے کیا کیا۔
وزیر اعظم کی طرف سے اس قسم کے بیانات وہ بھی انتخابی ریلیوں میں،اس سے صاف لگتا ہے کہ بی جےپی کی آگے کی منزل واقعی بہت کٹھن ہے۔
خاص طور پر ریاست مغربی بنگال میں جس طرح سے بی جے پی اور ٹی ایم سی آمنے سامنے ہے اس نے اس نظریہ کو بدل دیا ہےکہ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں اصل مقابلہ وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس صدر راہل گاندھی کے درمیان ہے ۔پچھلے چھ مراحل کے انتخابات کے بعد بنگال کے سیاسی حالات کا تجزیہ کریں توایسالگتا ہےکہ سخت مقابلہ نریندر مودی اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کے درمیان ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہےکہ بی جے پی کو ایس پی ۔بی ایس پی اتحاد کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان اتر پردیش میں ہونے والا ہے۔اس لئے مودی اور امت شاہ کی مکمل کوشش ہےکہ بنگال کی ۴۲؍ میں سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں بی جے پی کے کھاتے میں جائے تاکہ اس کمی کی بھر پائی ہو سکے۔دوسری طرف ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی کاپورا زور اس بات پر ہےکہ ریاست میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی طاقت کوکس طرح سے روکا جائے۔گویا دونوں پارٹیوں کیلئے مغربی بنگال میں سخت چیلینجز ہے۔
بی جے پی صدر امت شاہ کی ریلی میں ہوئے تشدد کے بعد حالت اس قدر خراب ہوگئے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مغربی بنگال میں قبل ازوقت ریلی اوراجلاس پر پابندی لگا دی گئی۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ تشہیری مہم کا وقت ختم ہونے سے تقریبا۲۰؍ گھنٹے پہلے ہی الیکشن کمیشن نے وہاں کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے تشہیری مہم پر پابندی لگادی۔یہ پہلی بار ہو گا کہ دفعہ۳۲۴؍ کا استعمال کیا گیا ہے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ انتخابات کے دوران بحث کا جو مقابلہ نریندر مودی اور راہل گاندھی کے درمیان ہونا چاہئے تھا وہ مودی اور ممتا کے درمیان دیکھنے کو ملا۔ انتخابی مہم میں بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے درمیان جو زبانی جنگ جاری رہی اس نے اہم اپوزیشن کے کردار سے کانگریس کو دور کر دیا ہے۔بی جے پی بنگال بچاؤکی لڑائی لڑ رہی ہے تو ممتا ملک کا آئین اور جمہوریت بچانے کے لیے لڑائی لڑنے کا دعوی کر رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک ریلی میں وزیر اعظم مودی نے یہاں تک کہہ دی کہ دیدی کی ۴۰؍رکن اسمبلی ان کے رابطے میں ہیں۔تو ممتا بنرجی نے مودی کو تھپڑ مارنے کی بات کہہ دی ۔ گزشتہ دن مغربی بنگال میں لوک سبھا انتخابات کے دوران ہو رہے تشدد پر وزیر اعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال کی ممتا بنرجی کی حکومت پر حملہ کیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ مغربی بنگال کے مقابلہ میں جموں وکشمیر میں الیکشن زیادہ پر امن ہوتے ہیں۔دوسری طرف ممتا بنرجی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اتنا جھوٹ بولنے کے لئے اٹھک بیٹھک کرنی چاہئے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو بی جے پی کا بھائی بتاتے ہوئے چیلنج کیا کہ مودی الزام ثابت کریں ورنہ جیل تک لے جائیں گی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس بار کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج سب سے زیادہ چونکانے والے ہوں گے۔
یو پی اوربنگال کے بعد بہار کی بات کریں یہاں آخری مرحلے میں ۸؍سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے، اور ایک بار پھر سے نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کی طرف سے خصوصی ریاست کے درجہ کا مطالبہ اٹھنے لگا ہے جس پر کہا جا رہا ہےکہ نتیش کمار پھر سے پالا بدلنے کی کوشش میں ہیں۔آرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بھی جے ڈی یو کے اس بدلے اندا ز پر شدید حملہ کیا ہے۔تیجسوی کا کہنا ہےکہ نتیش کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس بات کو خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in