نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیں علماءکرام اور دانشورا ن: امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی

انگریزی زبان میں یہ ۴۸۴ صفحات اور ہندی زبان میں ۰۵۶ صفحات پرمشتمل ہے ۔ دو سال پہلے حکومت نے اپنی مجوزہ تعلیمی پالیسی کے اہم نکات ویب سائٹ پر ڈالے تھے اور ماہرین تعلیم،دانشوران ،سماجی شخصیات ،تعلیمی اداروں اور این جی اوز سے نئی تعلیمی پالیسی کی ڈرافٹنگ کے تعلق سے مشورے طلب کیے تھے
پٹنہ (پریس ریلیز)
امیر شریعت بہار ،ا ڈیشہ وجھارکھنڈ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے مرکزی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی ۹۱۰۲ئ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ حکومت ہند نے ۹۱۰۲ئاور اس سے آگے کے لیے اپنی نئی تعلیمی پالیسی ۹۱۰۲ئ متعارف کرائی ہے ، جو اس نے فی الحال ہندی اور انگریزی زبانوں میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی ہے ۔ انگریزی زبان میں یہ ۴۸۴ صفحات اور ہندی زبان میں ۰۵۶ صفحات پرمشتمل ہے ۔ دو سال پہلے حکومت نے اپنی مجوزہ تعلیمی پالیسی کے اہم نکات ویب سائٹ پر ڈالے تھے اور ماہرین تعلیم،دانشوران ،سماجی شخصیات ،تعلیمی اداروں اور این جی اوز سے نئی تعلیمی پالیسی کی ڈرافٹنگ کے تعلق سے مشورے طلب کیے تھے ، حکومت کو بہت سے مشورے موصول ہوئے ، امارت شرعیہ سے بھی کئی نکات پر اہم مشورے اور تجویزیں پیش کی گئی تھیں۔اب حکومت نے ا ن تجاویز، مشوروں اور اپنے پہلے سے مقرر شدہ عزائم و منصوبوں کی بنیاد پریہ تفصیلی تعلیمی پالیسی تیار کر کے ویب سائٹ پر ڈالی ہے اور اس کے بارے میںماہرین تعلیم،دانشوران ،سماجی شخصیات ،تعلیمی اداروں اور این جی اوز سے رائے طلب کی ہے ۔مذکورہ تعلیمی پالیسی میں حکومت نے گذشتہ پالیسیوں کے مقابلہ میں کئی ترمیمات کی ہیں ، لازمی حق تعلیم ا ور اسکولی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ترمیمات کی گئی ہیں ۔ممکن ہے کہ اس بنیاد پر حق تعلیم قانون (رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ) میں بھی ترمیم کی جائے ۔
اس لیے علماءکرام ، مدارس کے ذمہ داران اور تعلیمی و مذہبی اداروں کو اس تعلیمی پالیسی کا بنظر غائر جائزہ لینا چاہئے، اور اگر اس تعلیمی پالیسی میں کوئی سقم یا آئین میںاقلیتوں کو دیے گئے حقوق سے تصادم نظر آئے، آئین کے دفعہ ۹۲ اور ۰۳ میںدی گئی یقین دہانیوں پر ضرب پڑتی ہو تو اس سے حکومت کو بھی واقف کرائیں اور امارت شرعیہ میں بھی اپنے مشوروں اور تجاویز کی ایک کاپی بھیجیں ، تاکہ اس کی بنیاد پر امارت شرعیہ کی جانب سے حکومت تک مضبوط آواز پہونچائی جا سکے۔حکومت نے رائے دینے کے لیے ۰۳ جون تک کا وقت دیا ہے ، اس لیے سر دست ایک خط وزار ت برائے فروغ انسانی وسائل کو بھیج دیا جائے اور مطالبہ کیا جائے کہ رائے دینے کے لیے جو وقت دیا گیا ہے اس کو کم از کم تین ماہ بڑھا دیا جائے تاکہ پوری پالیسی کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے رائے دی جا سکے۔