نئی قومی ایجوکیشن پالیسی پورے ملک پر ایک مخصوص مذہب اور کلچر مسلط کرنے کی کوشش ۔ ملک کی اقلیتیں سب سے زیادہ ہوں گی متاثر

آئی او ایس میں قومی پالیسی کے مسودہ پر مذاکرہ کا انعقاد ۔ شرکاءنے خدشات کا اظہار کیا
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیزمیں آج قومی ایجوکیشن پالیسی کے نئے مسودہ پر ایک مباحثہ کا اہتمام کیاگیا جس میں ملک کے نامور دانشور ان نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کئی طرح کی تشویش کا اظہار کیا ۔ مجموعی طور پر شرکاءنے کہاکہ یہ پالیسی اقلیتوں اور مسلمانوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوگی ۔اس کا واحد مقصد پورے ہندوستان کو ایک رنگ میں رنگنا اور ان پر ایک مخصوص زبان ،کلچر ،تہذیب اور مذہب کو مسلط کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پانے کیلئے پرائیوٹ سیکٹر کو فروغ دے رہی ہے جس سے تعلیم کا نقصان ہوگا اور تجارتی گروپ کا بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا ۔ مباحثہ میں یہ بھی کہاگیا مجوزہ قومی ایجوکیشن پالیسی کے چیرمین ملک کے وزیر اعظم ہوں گے جس کا واضح مطلب ہے کہ تعلیمی پالیسی میں پی ایم او کی مداخلت ہوگی اور اس طرح یہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں رہ پائے گاجبکہ ایجوکیشن پالیسی کیلئے خود مختاری اور مکمل آزادی ضرور ی ہے ۔
معروف ماہر تعلیم پروفیسر شعیب عبد اللہ سابق پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہاکہ نئی ایجوکیشن پالیسی میں تعلیم کو کئی حصوں میں تقسیم کیاگیاہے جو درست نہیں ہے ۔ پرائمری ایجوکیشن کا معاملہ ہو یا اعلی تعلیم کا معاملہ دونوں میں یکسانیت ہے ۔ پالیسی کو قومی کردار دیاگیا ہے جو صحیح نہیں ہے کیوں کہ ہر صوبے ا ور علاقے کے حالات مختلف ہیں ۔انہوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے پالیسی میں تین سے پانچ سال کے بچوں کا داخلہ ضروری قرار دیاگیاہے لیکن معیاری تعلیم کیسے بہتر ہوگی یہ بہت اہم ہے ۔
آئی او ایس کے سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ا یم خان نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ ہندوستان کثرت میں وحدت کا متقاضی ہے اور یہ مسودہ ہندوستان کے اس مزاج کے خلاف ہے اس لئے یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوپائے گی ۔ ان کے پاس پیسہ ہے ،افراد ہیں وسائل ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کامیاب نہیں ہوپائیں گے کیوں کہ ہندوستان کے مزاج ا ور کلچر کے خلاف ہے ۔
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے چیرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہا کہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں مرلی منوہرجوشی ایک ایساہی منصوبہ نافذ کرنا چاہ رہے تھے لیکن آئی او ایس کی بروقت کوششوں کے بعد وہ نہیں کرسکے ۔ اب بی جے پی دوبارہ وہی کرنے جارہی ہے اور ایجوکیشن کے ذریعہ اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتی ہے ۔ اس طرح کی تمام پالیسی سے یہاں کی اقلیت سب سے زیادہ متاثر ہوگی اس لئے اس کا گہرائی سے مطالعہ اور اسے روکنے کی کوشش کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہاکہ تھری لنگویجز فارمولا کو نافذکرنے کی ضرورت پر زور دیا جائے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتاہے لسانی اقلیات کو پریشانی کا سامنا کرناپڑے گا اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مجوزہ مسودہ پر رائے دینے کیلئے جو وقت دیاگیاہے اس میں اضافہ کا مطالبہ کریں کیوں اتنی اہم پالیسی پر ڈسکشن کیلئے حکومت نے جو وقت دیا ہے وہ ناکافی ہے ۔
پروفیسر اقبال حسین استاذ شعبہ قانون جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہاکہ مسودہ کا گہرائی سے مطالعہ کرنا اور موجودہ دور میں تعلیم کیلئے جو ضروریات ہیں اسے حکومت تک پہونچانا ضروری ہے ۔۔
ڈاکٹر امریش رائے کنوینر آر ٹی ای نے کہاکہ مجوزہ پالیسی میں پرائیوٹ سیکٹر کیلئے دروزہ کھول دیاگیاہے جس سے سرکاری اسکول بہت کم ہوجائیں گے۔ جن مقامات پر بیس سے کم بچے ہیں وہاں بھی اسکول قائم نہ کرنے کی بات ہے جس سے قوم میں جہالت بڑھے گی کیوں کہ پہاڑی اور کچھ دیگر دور درزا کے علاقوں میں بیس پچیس سے زائد بچے نہیں ہوتے ہیں ۔ اسکول کیلئے جو شرطیں بتائی گئی ہے اس کے مطابق عام لوگوں کیلئے اسکول قائم کرنا مشکل ہوگا اور بڑے بڑے تجارتی گروپ اور غیر ملکی کمپنیوں کیلئے ہی مجوزہ شرطوں کے مطابق اسکو ل قائم کرنا ممکن ہوپائے گا ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ قومی ایجوکیشن پالیسی کے چیرمین وزیر اعظم ہوں گے جس کی وجہ سے پی ایم او کی مداخلت ہوگی اور یہ ادارہ خود مختار نہیں رہ پائے گا ۔صوبوں میں تمام اختیارات وزیر اعلی کے پاس ہوگا ۔پروفیسر الیاس حسین نے کہاکہ یہ خطرناک پوائنٹ ہے اور اس کا خاتمہ ضروری ہے ۔
ماہر تعلیم نازخیر نے کہاکہ مسودہ میں مدرسہ ،پاٹ شالا ،اسکول اور دیگر پرائیوٹ اداروں کے بارے میں کہاگیا ہے کہ یہ سب جاری رہیں گے لیکن اس کیلئے جو شرائط بیان کی گئی ہیں اس کی تکمیل ان اداروں کیلئے مشکل ہوگی اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں پرائیوٹ سیکٹر کیلئے دروازہ کھول دیاگیا ہے ۔قاضی فردوس الاسلام نے کہاکہ ایجوکیشن میں سیاسی مداخلت ہمیشہ ہوتی رہی ہے لیکن مجوزہ مسودہ میں براہ راست مداخلت کی جارہی ہے جو قطعی طور پر درست نہیں ہے ۔
جماعت اسلامی ہند کے انعام الرحمن نے کہاکہ بہت خوبصورتی کے ساتھ اس پالیسی کے ذریعہ ایک زبان ،مذہب اور کلچر کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بازار کی ضرورت پوری کرنے کیلئے یہ پالیسی بنائی گئی ہے ۔
مولانا عبد الحمید نعمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہاکہ مجوزہ پالیسی کے بین السطور سے واضح ہے کہ حکومت تعلیم اور نظریاتی طور پر اپنا ایجنڈا تھوپنا چاہتی ہے ۔ وہ براہ راست اپنانظریہ مسلط کرنے اور ساور کر کے افکار کو نافذ کرنے کے بجائے گاندھی ،پٹیل وغیرہ کا سہار ا لے رہی ہے جس کا اثر براہ راست مسلمانوں پرپڑے گا ۔
پروفیسر ایس علی محمد نقوی نے کہاکہ یہ پالیسی اقلیتوں کو متاثر کرے گی اس لئے سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور فکر ضروری ہے ۔ مباحثہ میں سینئر صحافی حامد حسین ۔ شمس تبریز قاسمی ۔ سمرا خاتون۔ اقبال حسین سمیت متعدد شخصیات نے شرکت کی ۔