تین طلاق کا مسئلہ سماجی اصلاح کا مسئلہ ہے قانون سازی کانہیں : بورڈ

بورڈ کا موقف ہے کہ یہ قانونی مسئلہ نہیں ہے، سماجی مسئلہ ہے، حکومت جو طاقت سیاسی مقاصد کے لئے قانون سازی اور اس کی تشہیر کے لئے استعمال کر رہی ہے، اگر وہی صلاحیت سماج سدھار کے لئے استعمال کرتی اور اس کے لئے مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی مدد حاصل کرتی تو اس سے زیادہ فائدہ ہوتا
حیدر آباد (پریس ریلیز)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ محترم صدر جمہوریہ نے پارلیامنٹ کے صدارتی خطبہ میں تین طلاق کا مسئلہ چھیڑ دیا، صدر ملک کا اعلیٰ ترین دستوری عہدہ ہے، وہ صرف برسراقتدار پارٹی کا نمائندہ نہیں ہوتا؛ بلکہ پوری عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے دستور میں تمام طبقات کے لئے مذہبی آزادی کا جو اصول مقرر کیا گیا ہے، اس پر قائم رہے اور حکومت کو بھی اس پر قائم رہنے کا مشورہ دے، یہ بات بھی بے حد افسوس ناک ہے کہ موجودہ حکومت تین طلاق کے مسئلہ میں غیر جمہوری طریقہ پر اپنے مجوّزہ قانون کو نافذ کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور راجیہ سبھا میں ناکام ہونے کے بعد آرڈیننس کا سہارا بھی لے رہی ہے، نیز موجودہ بجٹ اجلاس میں پھر اس بِل کو پیش کر دیا گیا ہے، بورڈ کا موقف ہے کہ یہ قانونی مسئلہ نہیں ہے، سماجی مسئلہ ہے، حکومت جو طاقت سیاسی مقاصد کے لئے قانون سازی اور اس کی تشہیر کے لئے استعمال کر رہی ہے، اگر وہی صلاحیت سماج سدھار کے لئے استعمال کرتی اور اس کے لئے مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی مدد حاصل کرتی تو اس سے زیادہ فائدہ ہوتا، حکومت کو چاہئے کہ اس بِل کو سیلکٹ کمیٹی کے حوالہ کر دے؛ تاکہ اس مسئلہ کا تعلق جس طبقہ سے ہے وہ بھی اپنی بات کمیٹی کے سامنے رکھ سکے، اور جمہوری طریقہ سے باہمی رضامندی سے اس مسئلہ کا حل نکل سکے، بورڈ اپوزیشن پارٹیوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بحالت موجودہ اس کو راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہونے دے، ساتھ ساتھ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے کام کی طرف خصوصی توجہ دیں اور کسی مناسب سبب کے بغیر طلاق یا تین طلاق واقع کرنے کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان کو روکنے کی اور سماج میں انصاف قائم کرنے کی بھر پور کوشش کریں؛ کیوں کہ بلا سبب طلاق دینا یا ایک ساتھ تین طلاق دینا عورتوں کے ساتھ ظلم ہے۔

SHARE