مغربی بنگال میںمرکز المعارف ممبئی کی نئی شاخ کا افتتاح
کولکاتہ24جون(ایم این این )
مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی آج اہل علم کے حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، بہت ہی قلیل عرصہ میں مرکزالمعارف اور اس سے منسلک اداروں سے انگریزی زبان و ادب سے لیس ہوکر فارغ ہونے والے علماءکرام نے نہ صرف یہ کہ ہندوستان بلکہ دنیا کے تقریبا بیس ملکوں میں اپنی گراں قدر دینی،ملی،اصلاحی،دعوتی سرگرمیوں کے ذریعہ اپنے وجود کو منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور انگریزی زبان میں تصنیف و تالیف اور تراجم کے ذریعہ اپنی ایک الگ پہچان بناچکے ہیں،اس ادارہ سے فارغ ہونے والے نوجوان علماءکرام نے اسکی افادیت کو اپنے بے مثال کارناموں کے ذریعہ ثابت کردیا ہے،یہی وجہ ہے کہ اسکی شاخیں ملک بھر کی کئی ریاستوں میں قائم ہوچکی ہیں۔ یہ باتیں مدرسہ اشرف العلوم شالوک پاڑہ، ہا¶ڑہ ویسٹ بنگال میں مرکز المعارف کی نئی شاخ کے افتتاح کے موقع پرادارہ کے ناظم اور پروگرام کے صدر جناب مولانا موسی کلیم اللہ صاحب قاسمی نے کہیں۔انہوں نے کہاہے کہ آج ہمارے ادارہ کا ذرہ ذرہ خوشی سے جھوم رہا ہے اور ذمہ داران مرکز المعارف کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے،اور یہ یقین دلاتا ہے کہ آپ نے جو اعتماد اس ادارہ پر کیا ہے انشاءاللہ اس پر پورا کھڑا اترے گا۔ ادارہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری اور فعال سماجی کارکن جناب باوجل صاحب نے مرکز المعارف کے اس برانچ کے قیام کو علاقہ کے لیے تاریخی بتایا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا،اس مبارک موقع پر ادارہ کے دو موقر اساتذہ مولانا مفتی عبیداللہ قاسمی اور مفتی وسیم الباری قاسمی نے بھی مرکز المعارف کے کارناموں کو سراہتے ہوئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پرگرام کی نظامت کررہے شعبہ کے ہیڈ مولانا محمد فیضان ندوی نے کہا کہ انگریزی زبان سیکھنے کے بعد انسان کا دائرہ عمل کافی وسیع ہوجا تا ہے اور حصول علم کا ایک بڑا دروازہ کھل جاتاہے ۔انگریزی زبان اس وقت عالمی زبان ہے اس لیے ہمیں دنیا بھر میں اپنے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے بھی انگریزی زبان سے واقفیت حاصل کرناضروری ہے۔ شعبہ انگریزی کے استاذ مولانا محمد اسعد اقبال قاسمی نے مرکز المعارف کے کارناموں اور اسکے اغراض ومقاصد کو مختصر اور جامع انداز میں پیش کیا، اخیر میں ادارہ کے سینئر استاذ جناب حافظ الحاج عبد الحمید صاحب کی رقت آمیز دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔ اس موقع پر علاقہ کے معزز علماءکرام، دانشوران اور ادارہ کے اساتذہ¿ کرام اور طلبہ کافی تعداد میں موجود تھے۔






