”اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دو اسٹریٹیجک پارٹنر ملک، جو نیٹو اتحاد کا بھی حصہ ہیں، ان کے مابین ایسا کچھ دیکھنے میں آئے۔ اس لیے میری رائے میں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا
انقرہ(ایم این این )
انقرہ حکومت کے روسی میزائل سسٹم خریدنے کے فیصلے پر صدر ٹرمپ کی طرف سے کی جانے والی شدید مخالفت کے سلسلے میں ترک صدر ایردوآن نے کہا ہے کہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امریکا ترکی کے خلاف کوئی پابندیاں عائد کرے۔
جاپان کے شہر اوساکا سے، جہاں کل جمعے اور آج ہفتے کے روز جی ٹوئنٹی کی دو روزہ سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی، آج انتیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس سمٹ کے آخری روز اپنے امریکی ہم منصب سے ایک ملاقات کی۔
امریکا اور ترکی دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ہیں۔ ترکی روس سے ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل نظام خرینا چاہتا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نہ صرف انقرہ کے ان ارادوں کے بہت خلاف ہیں بلکہ وہ اسی وجہ سے ترکی کو کئی طرح کی دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔
اس تناظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکا روسی میزائل سسٹم خریدنے پر ترکی کو ایف پینتیس طرز کے جدید ترین طیارے دینے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ واشنگٹن انقرہ کے خلاف متنوع قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر کا اپنے ترک ہم منصب سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ انقرہ روس کے ساتھ اسے دفاعی تجارتی سودے کو ہر حال میں منسوخ کرے۔
اوساکا میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے حاشے پر آج ٹرمپ اور ایردوآن کی جو ملاقات ہوئی اور جس کے بعد ترک صدر نے صحافیوں سے خطاب بھی کیا، اس میں ایردوآن کا موقف بڑا واضح اور غیر متزلزل تھا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کو یہ توقع نہیں ہے کہ واشنگٹن انقرہ کے خلاف کوئی پابندیاں عائد کرے گا۔
صدر ایردوآن کے الفاظ میں، ”اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دو اسٹریٹیجک پارٹنر ملک، جو نیٹو اتحاد کا بھی حصہ ہیں، ان کے مابین ایسا کچھ دیکھنے میں آئے۔ اس لیے میری رائے میں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔“ صدر ایردوآن کے مطابق ان کے اس موقف میں آج ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں کا بھی کافی عمل دخل ہے۔
ایک اخباری نمائندے کی جانب سے ترکی کے ایس۔400 دفاعی نظام خریدنے کی صورت میں کیا امریکہ ترکی پر پابندیاں عائد کرے گا ؟ کے جواب میں صدرِ امریکہ نے کہا کہ”صدر ایردوان نے اوباما انتظامیہ سے پیٹریاٹ کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا تا ہم اس کی اجازت نہ دی گئی۔ جو کہ ترکی کے ساتھ سراسر نا انصافی تھی۔ ایس۔ 400 کا معاملہ پیچیدہ ہے، ہم مختلف حل چاروں پر کام کر رہے ہیں، ہمیں ترکی سے انصاف کرنا ہو گا۔ ”
ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کی یاد دہانی کرانے والے ٹرمپ نے بتایا کہ ترکی امریکہ کا دوست ہے ہم نے مل جل کر بڑے اہم کام سر انجام دیے ہیں یہ ہمارا ایک بڑا تجارتی حصہ دار بھی ہے، جسے ہم مزید آگے لیجائیں گے، دو طرفہ 75 ڈالر کا تجارتی حجم کافی کم ہے جسے ایک سو سے زیادہ ہونا چاہیے۔
جہاں تک ترک روسی دفاعی تجارتی سمجھوتے کی ممکنہ منسوخی کی بات ہے، تو صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ ترکی نے روس سے جو جدید ترین S-400 ڈیفنس میزائل سسٹم خریدنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ ڈیل تو مکمل ہو بھی چکی۔ اس کے لیے ادائیگیاں بھی کی جا چکی ہیں اور اب تو ان میزائلوں کی فراہمی شروع ہونے والی ہے۔ رجب طیب ایردوآن کے بقول، ”یہ کاروبار تو مکمل ہو بھی چکا۔“