چین کی این ایس جی مخالفت اور چینی چٹائیوں پر یوگ کا اہتمام !

محمد آصف ا قبال
گزشتہ ایک ہفتہ پہلے کی بڑی خبر کیرانہ کی نقل مکانی تھی ۔جس کا آغاز و اختتام اُسی ہفتہ ہوگیا تھا۔اس کے باوجود اترپردیش حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ سنتوں کی پانچ رکنی ٹیم نے اپنی رپورٹ جب بائیس جون کو سونپی تو ایک بار پھر وقتی طور پرمسئلہ کو منفی رخ دینے کی کوشش کی گئی لیکن ،کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔سنتوں کی ٹیم نے رپورٹ میں کہا ہے کہ کچھ لوگ وہاں کی فضا خراب کرنا چاہتے تھے۔ کیرانہ جانے والے سنتوں کے وفد میں بھارتی سنت کمیٹی کے قومی صدر پرمود کرشنن سمیت ہندو مہاسبھا کے صدر چکرپانی مہاراج،دیو آنند گری شامل تھے۔پرمود کرشنن نے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ سونپتے ہوئے بتایا کہ کیرانہ تحقیقات کے دوران انہوں نے وہاں پر تمام طبقے کے لوگو ں سے بات چیت کی اور پتہ چلا کہ اتر پردیش کی فضا خراب کرنے کی خطرناک سازش رچی گئی تھی۔ اس پر وزیر اعلی اکھلیش یادو نے سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔اسسے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ،کہ کوشش جو کی گئی تھی وہ جھوٹ پر مبنی تھی،اور واقعہ جو بیان کیاگیا تھا وہ حقیقت سے بہت دور تھا،برخلاف اس کے حالات یکسر مختلف تھے،لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ تھا،جسے حل کرنا مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، اور جس طرح انہیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی تھی وہ ابھی تک ادا نہیں کر رہے ہیں۔ساتھ ہی غربت و افلاس اور معاشی بدحالی کا معاملہ ہے،اس تعلق سے بھی کو ئی واضح منصوبہ ،رپورٹ اور واقعات سامنے آنے کے باوجود ،عمل درآمد کے مرحلے میں سامنے نظر نہیں آتا۔
ہفتہ کی دوسری اہم اور بڑی خبر عالمی یوگا دن کا منایا جاناہے۔اس دن کو منانے کے لیے جہاں حکومت نے اپنی تمام تر طاقت کا راست اور بلاواسطہ استعمال کیا۔وہیں عالمی یوگا دن کے موقع پرتاریخ رقم کرنے کی خواہش لئے ہندوستانی حکومت نے سوا سو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم صرف اشتہار بازی پر خرچ کی ہے۔ حکومت کی مختلف وزارتوں نے اس دن کو کامیاب بنانے کا جو بجٹ تیار کیا ہے وہ تشہیر کے لیے دیگر منصوبوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق اکیلے آیوش محکمہ نے 30کروڑ روپے خرچ کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے۔ جبکہ وزارت خارجہ نے ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں واقع ہندوستانی سفارت خانوں کے ذریعہ یوگا دن کو کامیاب بنانے کے لئے تشہیر کی ہے۔ جس کا بجٹ تقریباً سو کروڑ روپے کے آس پاس بتایا جا رہا ہے۔دولت،وسائل، ذرائع،صلاحیتں،وقت کا بھر پور استعمال ہوا تو وہیں سرکاری وزراتیں،دفاتر،اثر و رسوخ کا استعمال بھی سامنے آیا ۔ساتھ ہی میڈیا جو کسی بھی چیز کو اہم اور غیر اہم بناتی ہے،اس موقع پر اس کا مکمل اور بھر پور استعمال کیا گیا۔اور اس سب کی وجہ جو ملک کے وزیر اعظم نے جو بتائی وہ یہ تھی کہ یوگا کوئی مذہبی سرگرمی نہیں ہے،لہذا اس کو گلالگایا جائے یعنی اس کو زندگی میں اختیار کیا جائے۔اس موقع پر ایک لمحہ کے لیے اُن لوگوں کے بیانات بھی یاد کرلینے چاہیے جنہوں نے موجودہ حکومت کی تشکیل کے وقت ،اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حلف برداری کے وقت کہا تھا کہ ہندوستان کو ایک طویل عرصہ کے بعد ایک ہندو حکمراں حاصل ہوا ہے۔اس پس منظر میں جب ہم نریندر مودی کی سرگرمیوں اور ان کی جانب سے کی جانے والی سعی و جہد کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سرگرمیوں کارشتہ کہیں نہ کہیں اس پس منظر سے بھی وابستہ ہے،جس کاتذکرہ کبھی کھل کر تو کبھی ڈھکے چھپے کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی ملک کے ہر باشعور شہری کو اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ جیسا کے کہنے والوں نے ملک کے وزیر اعظم کو “ایک ہندو حکمراں “کہا،اور اپنی امیدیں وابستہ کیں، اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے کہ ملک کو درحقیقت ہندو راشٹر بنانے میں مصروف عمل اورپابند عہد “ہندو حکمراں”کس سرگرمی کو کن مقاصد کے لیے انجام دے رہا ہے؟ممکن ہے کہنے والے کہیں کہ ملک کے وزیر اعظم کے لیے جو کسی بھی مذہب ، تہذیب اور ثقافت کو فروغ دینے کا ذمہ دار یا پابند عہد نہیں ہوتا ، کے لیے اس طرز پر سوچنا اور اس کی سرگرمیوں کا اس طرح جائزہ لینا مناسب نہیں ہے۔لیکن یہ جائزہ لینے کا عمل ہمارا خود کا نہیں بلکہ یہ جائزہ لینے کا عمل تو اُن لوگوں کا ہونا چاہیے ،جنہوں نے بڑی مشقتیں اٹھانے کے بعد اور اندرونی کشمکش سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ،نریندر مودی کو پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم نام زد کیا تھا۔بہرحال ،واقعہ تو یہی ہے کہ یوگا ایک مذہبی عمل ہے، اور جو یوگی ،تپسیا اور سادھنا کرتے ہیں یا جن مذہبی پیشواؤں کا ہندو مذہب میں تذکرہ اور عبادت کی جاتی ہے،وہ سب یوگا کے کسی نہ کسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے اپنی عبادت انجام دیتے رہے ہیں،اور وہی طریقہ آج بھی جاری ہے یہی وجہ ہے کہ یوگا کرتے وقت نہ صرف شلوک (مذہبی آیات)پڑھے جاتے ہیں بلکہ سوریہ نمسکار جیسی سرگرمی بھی انجام دی جاتی ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہندومذہب نے جس طرح دیگر نظریات و خیالات کو خودمیں ضم کرلینے کا ہنر سیکھا ہے،اسی طرح یوگا میں بھی دیگر صحت عامہ سے متعلق چیزوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔یا یہ کہیے کہ اسے جدید تر بناتے وقت دیگر ورزشوں کو بھی شامل کر لیا ہے۔جس کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ یوگا کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔
تیسری خبر گرچہ زیادہ مشتہر نہیں ہوئی لیکن یہ خبر اس لیے اہم ہے کہ ملک میں برسر اقتدار سیاسی جماعت اور اس کے لیڈران اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ؟اس کا اندازہ اُن کے بیانات،احساسات ،نظریہ،طرز عمل اور پایسی و پروگرام سے وقتاً فوقتاً خوب اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔خصوصاً دلت طبقہ جو صدیوں سے خود کو ہندوستانی تہذیب اور اس کی مضبوط جڑوں سے متاثرکن محسوس کرتا رہا ہے۔اور جس کے نتیجہ میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر سے لیے کر آج تک سیاسی و معاشرتی محاذ وں پر حصول وقار ،حصول عزت، حصول ذات ،کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں ۔اس سب کے باوجود نظریہ ظلم و زیادتی پر مبنی سماج ، اس کی فکر نے اُنہیں اپنے مقام سے اوپر نہیں اٹھنے دیا۔یہی وجہ ہے کہ آج کے “جدید ہندوستان “میں بھی دلتوں کو وقتاً فوقتاً ذلت آمیزی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔فی الوقت جس بیان یا صحیح معنی میں فکر کا ہم تذکرہ کررہے ہیں وہ ریاست مہاراشٹر کے بی جے پی ممبر اسمبلی روندر چوہان کی جانب سے سامنے آیا ہے،جو بیان انہوں نے ایک تقریب کے دوران دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ابراہم لنکن نے ایک سور کو نالے سے نکال کر اسے صاف کیا تھا،اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور ریاست کے وزیر اعلیٰ دینور فڈنویس دلتوں کی ترقی کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب حزب اختلاف نے اس بیان کی بھر پور تنقید کی، دلت تنظیموں نے بیان کو واپس لینے اور معافی مانگنے کی بات کہی، این سی پی پارٹی نے مخالفت کرتے ہوئے ایک سورہی کا نام رویندر چوہان رکھ دیا،اس سب کے باوجود نظریہ اور فکر میں تبدیلی کی نہ کوئی کوشش ہوئی اور نہ ہی اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔گرچہ حقیقت حال کا تذکرہ ایک مختصر واقعہ سے کیا گیا لیکن درحقیقت یہی وہ بدترین صورتحال ہے جو ملک کو اندون خانہ کمزور کیے ہوئے ہے۔اور اسی ایک معمولی واقعہ کے پس منظر میں ملک کے برسر اقتدار طبقیاوران مذہبی و معاشرتی راہنماؤں کے ذہنوں کو خوب اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ایک جانب یہ سیاسی و غیر سیاسی لیڈران اکیسویں صدی میں ہندوستان کو دنیا کی ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر ترقی یافتہ فہرست میں شامل کرنے کی خواہاں ہیں تو وہیں اُن کی فکر اور طرز عمل منووادی دور میں آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایک ایسا دور جو صدیوں پرانا اوردقیانوسی دور ہے۔ان حالات میں برسراقتدار طبقہ اور اس کے مذہبی و معاشرتی نظریہ پر دنیا کا کون شخص تعریف کر سکتا ہے؟
آخری خبر 2002میں ریاست گجرات میں ہوئے مسلمانوں کا قتل عام اورگلبرگ سوسائٹی پر آنے والا فیصلے کی ہے۔جس کا فیصلہ سناتے ہوئے جج صاحب کہہ رہے تھے کہ ہلاک شدہ کانگریس کے سیاسی لیڈر ،احسان جعفری نے اپنی لائسنس والی بندوق سے گولی چلا کر بھیڑ کو بھڑکا دیا تھا جس کے نتیجہ میں 69 افراد ہلاک ہوگئے،یہ افراد قبل از وقت مجرم نہیں تھے،لہذا شواہد و ثبوتوں کی روشنی میں بڑی تعداد میں لوگوں کو بری کر دیا گیا۔ہستکشیپ ڈاٹ کام کی خبر کی روشنی میں گودھرا میں بی جے پی نے ٹرین میں آگ لگائی،اس کے بعد ٹرین میں مارے گئے لوگوں کی لاشوں کے ساتھ پوری ریاست میں جلوس نکالے گئے،بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے رہنماؤں کی نگرانی میں بھیڑ اکٹھی ہوئی اور مسلم بستیوں اور دکانوں پر حملے کئے گئے،اور ان فسادات میں(جبکہ لفظ فساد خود اس واقعہ کے لیے مناسب نہیں)تقریباً دو ہزار لوگوں کا قتل ہوا، اس سب کے باوجود قاتل اس بات پر فخر کرتے نظر آئے کہ وہ ریاست گجرات کی ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔وہیں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ بھلے ہی چین نے ہندوستان کو این ایس جی کی رکنیت نہیں ملنے دی اور اس کی مخالفت کی اس کے باوجود ہندو چینی بھائی بھائی کا نعرہ دیتے ہوئے یہ منظر کیا کافی نہیں ہے کہ عالمی یوگا دن پر جو یوگ کیا گیا وہ چین کی بنی چٹائیوں پر ہی تھا!۔(ملت ٹائمز)

SHARE