گذشتہ 27 جون کو مفتی رئیس قاسمی نے ماب لنچنگ کے خلاف ایک اجتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ ”ہمارے پاس بھی طاقت ہے ۔ ہمارے پاس بھی نوجوان ہے ہمارے پاس بھی ہتھیار ہے ،ہم بھی مارسکتے ہیں حملہ کرسکتے ہیں لیکن ہم امن چاہتے ہیں “
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
اشتعال انگیز بیان دینے کے الزام میں ایک مقدمہ کا سامناکررہے اترا کھنڈ کے مفتی رئیس قاسمی کا مقدمہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے فری میں لڑنے کی پیشکش کی ہے ۔ محمود پراچہ ہندوستان کے سینئراور قد آور وکیل مانے جاتے ہیں ہیں ۔ دہشت گردی کے متعدد کیس میں وہ جیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ایسے میں ان کی طرف سے پیشکش آنے کے بعد مفتی رئیس کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اشتعال انگیز بیان کے الزام میں وہ مقدمات سے بری ہوجائیں گے ۔
ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ہریدوار جمعیت کے ذمہ دار اور وہاں کے مفتی رئیس قاسمی نے بتایاکہ ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے فری میں مقدمہ لڑنے کی پیشکش کی ہے جسے انہوں نے قبول کرلیاہے ۔ انہوں نے بتایاکہ پریشانی کے عالم میں ملی تنظیموں اور اہم ملی رہنما سے مدد اور تعاون کی امید تھی لیکن کسی نے ساتھ نہیں دیا ۔ محمود پراچہ صاحب نے از خود فون کرکے فری میں مقدمہ لڑنے کی پیشکش ہے جس سے مجھے راحت ملی ہے اور ہم ان کے بے بناہ شکر گزار ہیں ۔
واضح رہے کہ گذشتہ 27 جون کو مفتی رئیس قاسمی نے ماب لنچنگ کے خلاف ایک اجتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ ”ہمارے پاس بھی طاقت ہے ۔ ہمارے پاس بھی نوجوان ہے ہمارے پاس بھی ہتھیار ہے ،ہم بھی مارسکتے ہیں حملہ کرسکتے ہیں لیکن ہم امن چاہتے ہیں “ مفتی رئیس قاسمی کے اس بیان پر اتر اکھنڈ پولس نے ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 53 اے بی اور 500 کے تحت مقدمہ درج کرلیاہے ۔ مفتی رئیس قاسمی کو امید تھی کہ ملی رہنما ہماری مدد کریں گے لیکن انہوں نے اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے مولانا محمود مدنی کا ایک انٹرویوسوشل میڈیا پر گردش کررہاہے جس میں مفتی رئیس کے بیان کی انہوں نے سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے غیر مناسب بتایاہے ۔اس معاملے میں سوشل میڈیا پر مدارس کے فضلا ءمیں ایک جنگ چھڑ گئی ہے ۔ ایک طبقہ مفتی رئیس کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کررہاہے کہ موجودہ وقت میں ایسے بیانات ضروری ہیں اور مفتی رئیس کا ساتھ دینا چاہیئے۔یہ طبقہ مولانا محمود مدنی کے بیان سے بھی شدید ناراض ہے اور ان کا کہناہے کہ مولانا مدنی کو ساتھ دینا چاہیئے لیکن انہوں نے مذمت کرکے بزدلی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ دوسرا طبقہ اس کے خلاف مفتی رئیس کے بیان کو مصلحت اور حکمت کے خلاف قرار دے رہاہے وہیں یہ طبقہ مولانا مدنی کے بیان کو درست اور حکمت عملی پر مبنی قرار بتارہاہے ۔






