ڈھائی سالہ ٹونکل کے قتل کیس میں سی بی آئی جانچ کا مطالبہ ۔ گاﺅں والے زاہد کو بتارہے ہیں بے گناہ

زاہد حسین اور دیگر ملزمان کے خلاف اب تک کسی طرح کا کوئی ثبوت نہیں مل سکاہے تاہم متاثرہ کی فیملی اور شدت پسند ہندوا عناصر کا مطالبہ ہے کہ زاہد حسین ہی مجرم ہے اور بغیر کسی ثبوت کے اسے پھانسی دی جائے
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
علی گڑھ کے ٹپل میں گذشتہ ماہ ڈھائی سالہ ٹونکل شرما کا قتل ہوگیاتھا ۔اس معاملے میں پولس نے زاہد ، ان کی بیوی ،بھائی مہد ی حسن اور ایک شخص اسلم کو گرفتار کررکھاہے ۔ان سبھی پر ڈھائی سالہ ٹونکل کے ساتھ اجتماعی عصمت دری ،قتل ،اغوا اور کئی طرح کا کیس درج ہے۔ زاہد حسین اور دیگر ملزمان کے خلاف اب تک کسی طرح کا کوئی ثبوت نہیں مل سکاہے تاہم متاثرہ کی فیملی اور شدت پسند ہندوا عناصر کا مطالبہ ہے کہ زاہد حسین ہی مجرم ہے اور بغیر کسی ثبوت کے اسے پھانسی دی جائے ۔ زاہد کی طرف سے علی گڑھ بار ایسوسی ایشن نے کسی بھی وکیل کے مقدمہ کی پیروی کرنے پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے ۔ اس معاملے میں اب تک دوسماعت ہوچکی ہے اور ایک بھی ثبوت نہیں مل سکاہے ۔ گاﺅں کے لوگوں کا اس بارے میں کہناہے کہ زاہد حسین اوار اس معاملے میں گرفتاران کی بیوی اور بھائی بے قصور ہیں ۔ حقیقی مجرم کوئی اور ہے جسے گرفتار نہیں کیاجارہاہے ۔
ملت ٹائمز کی گراﺅنڈ رپوٹ کے مطابق گاﺅں کے ہندومسلم سماج کا مانناہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیاتو کچھ باہر کے لوگوں نے یہاں پہونچ کر معاملہ خراب کرنے کی کوشش کی تھی جو بالکل صحیح نہیں تھا اور اب وہ اس حادثہ کی جانچ بھی نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں جو صحیح نہیں ہے ۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس پورے حادثہ کی جانچ اور سی بی ائی انکوائری جائے تاکہ اصل مجرم سزا پاسکے اور کوئی بھی بے گناہ مجرم نہ بنے ۔

واضح رہے کہ 30 مئی کو بنواری نام کے ایک شخص کی ڈھائی سالہ بچی ٹونکل غائب ہوگئی تھی ۔ تیسرے دن 2جون کو لاش ایک کھنڈ ر سے ملی جس کی اطلاع ایک بھنگی خاتون نے سب سے پہلے زاہد کو جاکر جس کا گھر وہاں سے قریب ہے ۔ زاہد نے بنواری کو بتایاکہ یہاں لاش ملی ہے ہوسکتاہے کہ وہ آپ کی بچی ہو کیوں کہ گذشتہ تین دنوں سے پورے گاﺅں میں ٹونکل کی تلاش جاری تھی ۔ مسجد کے میناروں سے بھی اعلان کیاگیاتھا ۔ ٹونکل کے باپ نے فوری طور پر اس کا الزام زاہد پر ہی لگادیا اور کہاکہ اس سے چند دن قبل قرض کو لیکر ہماری لڑائی ہوئی تھی اس لئے اسی نے ایسا کیاہے ۔واقعہ کے پہلے پوسٹ مارٹم رپوٹ میں قتل کے ساتھ ،عصمت دری ،ناک ہاتھ کاٹنے وغیرہ کا تذکرہ تھا ۔ دوسری رپوٹ میں صرف قتل کا تذکرہ ہے ۔ ذرائع سے ملی سے خبر کے مطابق پہلی رپوٹ جس ڈاکٹر نے تیار کی تھی وہ جھوٹ ثابت ہوئی اور اب سے معطل بھی کردیاگیاہے ۔واقعہ کی خبر دور درزا کے علاقوں میں پہونچ گئی اور بڑی تعداد میں بھگوادھاری وہاں پہونچ کر ہنگامہ کرنے لگے ۔ مختلف لوگوں کی پٹائی کی ۔ گاﺅں میں خوف کا ماحول تقریبا دس دنوں تک رہا اور آدھی آبادی گاﺅں چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوگئی جن کی واپسی اب شروع ہے ۔
بجرنگ دل کے ضلع صدر پنکج پنڈٹ نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے اس لئے سرکار سے مطالبہ ہے کہ اس کی سی بی آئی انکوائری کرائی جائے تاکہ اصل مجرم کو سزا ملے اور جو بے گناہ ہے وہ سزا پانے سے بچ جائے ۔فی الحال ٹپل میں ماحول پرامن ہے ۔