عمران خان کے امریکہ جانے سے قبل پاکستان نے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا فیصلہ ۔ٹرمپ انتظامیہ کے شدید دباﺅ کا اثر!

پاکستان نے سن 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد ایسے مدارس کے خلاف کارروائی شروع کی تھی جن پر شدت پسندی کو فروغ دینے کا شبہ تھا۔ تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے ان کارروائیوں کے خلاف ردِ عمل سامنے آیا تھا۔
اسلام آباد (ایم این این )
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے دورہ پر روانہ ہورہے ہیں لیکن اس سے قبل امریکہ کے دباﺅں میں انہیں کئی طرح کا قدم اٹھانا پڑرہاہے اسی میں ایک دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی اور اصلاح کا فیصلہ بھی ہے ۔اس سے قبل ممبئی حملہ کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کی بھی گرفتاری ہوچکی ہے ۔ ہندوستانی میڈیا کا مانناہے کہ مودی کے دباﺅ میں حافظ سعید کو پاکستان نے گرفتار کیاہے جبکہ امریکی میڈیا اسے ٹرمپ کا دباﺅ بتارہی ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ سے انڈین میڈیا کے دعوی کی تصدیق نہیں ہوتی ہے جس میں انہوں نے حافظ سعید کو ممبئی حملہ کا سو کالڈ ماسٹر مائنڈ بتایاہے ۔
ڈی ڈبلیو کی رپوٹ کے مطابق پاکستانی مدارس میں اصلاحات لانے کا فیصلہ ملکی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا سے قبل کیا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پیر بائیس جولائی کے روز ملاقات کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اسلام آباد حکومت سے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کا مسلسل مطالبہ کرتی رہی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود کے مطابق مدارس میں اصلاحات لانے کے لیے حکومت ملک بھر میں موجود تیس ہزار سے زائد مدارس کو رجسٹر کرے گی۔ دینی مدارس میں انگریزی، ریاضی اور سائنس جیسے مضامین بھی پڑھائے جائیں گے۔ شفقت محمود کے مطابق اصلاحات کا عمل فوری طور پر شروع کر دیا جائے گا۔
پاکستان میں قائم ہزاروں مذہبی مدارس پر شدت پسندی اور نفرت انگیزی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا، ”کسی بھی مذہب یا فرقے کے خلاف نفرت کی تعلیم نہیں دی جائے گی۔ ہم ان کے نصاب کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ مذہبی منافرت پر مبنی کوئی چیز نہ ہو۔“
پاکستان نے سن 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد ایسے مدارس کے خلاف کارروائی شروع کی تھی جن پر شدت پسندی کو فروغ دینے کا شبہ تھا۔ تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے ان کارروائیوں کے خلاف ردِ عمل سامنے آیا تھا۔

SHARE