راشدالاسلام
بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ایک دہشت گردکے ڈاکٹرذاکرنائک کی تقاریرسے متاثراوران کی فین فلوورہونے کی بنیادپرہندوستانی الکٹرانک وپرنٹ میڈیاان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کررہی ہے۔ان پردہشت گردی کوفروغ دینے کے الزامات لگارہی ہے خودمسلمانوں میں سے بھی چندطبقات کے رہنماان کے خلاف زہرافشانی کررہے ہیں۔ان کی گرفتاری اوران کے چینل پرپابندی لگانے کا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں۔انہی میں سے ایک نام نہادمسلمان ،شیعیت کے علمبردار،بشارالاسدکے حامی ،اسرائیل ،بی جے پی اورآرایس ایس کے ہمنواوپرچارک اورنمائدہ روزنامہ انقلاب نارتھ کے ایڈیٹرجناب شکیل حسن شمسی صاحب ہیں۔وہ اپنے روزنامہ انقلاب میں خاص کالم ’’موضوع گفتگو‘‘میں 9اور10جولائی 2016کے تعلق سے تحریرکرتے ہیں ڈاکٹرذاکرنائک کے لاکھوں مداح ہیں اوران کے جلسوں میں ہزاروں کی بھیڑہوتی ہے۔ان کوگیتا،ویداپنیشد،منواسمرتی کے بہت سے شلوک کے ساتھ سیکڑوں آیات قرآنی اوراحادیث پیغمبر یادہیں،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک اچھاذہن پانے کے باوجودایک صالح فکرنہیں پاسکے۔انہوں نے تبلیغ اسلام کا بیڑہ اٹھایاتوتبلیغ کے نام پردوسرے مسلک کے مسلمانوں کے عقائد پرحملہ شروع کردیا۔اپنے جلسوں میں انہوں نے رسولؐکی یہ کہہ کرتوہین کی کہ جہاں رسول دفن ہیں وہاں اب صرف مٹی ہے اوررسول کے وسیلے سے دعامانگناحرام ہے۔انہوں نے ہندوفرقے کے دیوی دیوتاؤکامذاق اڑانے اوران کی توہین کرنے میں بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ان مذکورہ چندباتوں کے پیش نظرجناب شکیل شمسی صاحب سے چندباتیں پوچھناچاہتاہوں کہ آپ جن باتوں سے ڈاکٹرذاکرنائک صاحب کی گرفت اوردہشت گردی کو بڑھاوادینے کے ملزم ٹھہرارہے ہیں یہ ہرنوعیت سے سراسرغلط ہے۔آپ معلوم ہوناچاہئے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں ،رہتے ہیں اوراپنے اپنے مسلک اورکلچرل کے حساب سے عمل پیراہوکرزندگی گزربسرکرتے ہیں۔کیاآپ کومعلوم نہیں کہ ایک مسلک کے لوگ مزاروں پرچادرچڑھاتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے لوگ اس کوبدعت مانتے ہیں۔کیاآپ کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ آپ خودجس مسلک کے پیروکارہیں اس مسلک میں غالباً ایک ہفتے ،دوہفتے یااس سے زیادہ یاکم کی نمازیں ایک ہی دن میں اداکرتے ہیں جبکہ دوسرے مسلک حنفی دیوبندی ،تیسرے سلفی یعنی اہل حدیث جسے آپ وہابی کہتے ہیں اورچوتھے مسلک کے لوگ یعنی بریلوی حضرات ہیں یہ لوگ اس طرح نمازیں اداکرنے کوجائزنہیں کہتے ہیں۔کیاآپ کومعلوم نہیں کہ شیعیہ لوک محرم میں نوحہ خوانی کرتے ہیں،تابوت بناتے ہیں جبکہ آپ کے مسلک کے علاوہ باقی لوگ اس کے قائل نہیں ہیں اس لئے وہ لوگ نہیں مناتے محرم ۔کیا آپ کومعلوم نہیں ہے کہ تمام طبقے کے علماء میں اپنے اپنے مسلک کے حساب سے کچھ مسلکی آپسی اختلافات ضرورہیں ۔مگراس کا یہ مطلب نہیں آپ کے مسلک کونہ ماننے پروہ لوگ آتنگوادی،دہشت گردہوجاتاہے۔
اگرڈاکٹرذاکرنائک کچھ مسائل میں کچھ زیادہ ہی چرب ز بانی سے کام لیاہو جیسے بقول آپ کہ انہوں نے رسول کی توہین کی ہے یاجہاں رسول مدفون ہیں وہاں اب صرف مٹی ہے اوررسول کے وسیلے کے دعامانگناحرام ہے۔انہوں نے ہندوفرقے کے دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑایا۔آپ کی ہی بات کہتاہوں کہ ڈاکٹرذاکرصاحب نے یہ باتیں آج نہیں کہیں بلکہ شایدچندسال قبل کہے ہوں گے توآپ اس وقت آپ کہاں خواب غفلت میں سورہے تھے؟آپ جس دلیری کے ساتھ ڈاکٹرذاکرکے بیانات کوحوالہ دیکراپناالوسیدھاکرنے کی جوناکام کوشش کی ہے کہ ڈاکٹرصاحب کی تقاریرسن کران کے فین فلووردہشت گردہورہے ہیں اوروہ خوددہشت گردی کوفروغ دے رہے ہیںیہ سراسربے بنیادالزام تراشی کے سواکچھ نہیں ہے؟آپ کوشایدنہیں معلوم کہ جوشخص قرآن واحادیث کی مخالفت کرتا ہے ،اللہ اوراس کے رسول کونہیں مانتاہے وہ کافرہوجاتا ہے نہ کہ وہ شخص دہشت گرد یادہشت گردی کوفروغ دینے والادھرم گوروبن جاتاہے۔ڈاکٹرنائک سے کوئی بھی شخص نہیں کہتاہے کہ آپ ان کی تقاریرسنئے اوراس پرعمل کیجئے ۔ہاں اگروہ اچھی بات کہتاہے اس کوقبول کیجئے ،اگرغلط بات بولتاہے،جھوٹی حدیث بیان کرتاہے یاآیات قرآنی واحادیث رسول کی غلط تفسیروتوضیح کرتا ہے توآپ خود ان سے جاکربولئے کہئے کہ یہ مسئلہ اس طریقے سے نہیں ہے۔چاہے وہ کوئی بھی مذہبی پیشواہو۔اگرڈاکٹرصاحب آپ کی بات کونہیں مانتے ہیں ،توان کوبراکہئے اوران کونہیں مانئے۔مسلم شریف کے مقدمے ہے جس کا مفہوم ہے کہ آپ ؐنے فرمایامیری جس حدیث سے فتنہ کا اندیشہ ہوجہاں آپ میری حدیث بیان کررہے ہیں توآپ پرلازم ہے (حالانہ وہ حدیث ہے) کہ اس وقت میری حدیث کوچھوڑدو۔ایک جگہ اورہے کہ جس کا مفہوم جو شخص صحیح راستے پرنہ چلے یااللہ اوراس کے رسول کی باتوں کونہ مانے تواس کوہرممکن طریقے سے سمجھاؤبجھاؤجب وہ نہ مانے تواس کودل سے برا کہو۔
شکیل حسن شمسی صاحب آپ پڑھے لکھے انسان ہیں نہ کہ جاہل اسلئے آپ اپنے دماغ کے ڈھکن کوغیرجانبدارانہ طورپرکھولئے جوصحیح بات ہے اس کوبیان کیجئے ،کذب بیانی سے کام نہ لیجئے،آپ اچھے طریقے سے مسلک شیعیت کوخوب فروغ دیجئے آپ کوہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں کوئی نہیں روکے گا۔آپ کومعلوم ہوناچاہئے کہ اسیمانندحیدرآبادمکہ مسجدبم دھماکہ کے مجرم ہے دہشت گرد ہے انہوں نے خوداقبال جرم کیاہے۔کلیم نامی شخص جوبے قصورتھا،زبردستی بم دھماکہ کے الزام میں اس کوسلاخوں میں ڈال دیاگیا۔ اسیمانندنے کلیم کے اندراخلاق سے متاثرہوکرفوراً اقبال جرم کیا۔آپ جس طرح ذاکرنائک کے فلووورفین کے نام پربدنام کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔
شکیل صاحب جہاں تک آپ کا سوال ڈاکٹرذاکرنائک صاحب پردارالعلوم دیوبندکے فتوے کا ہے ۔آپ اس فتویٰ کوغورسے دیکھئے پڑھئے اورسمجھئے کیوں کہ وہ فتویٰ ڈاکٹرنائک کے تمام باتوں پرنہیں ہے بلکہ ڈاکٹرذاکرنائک کی جس بات یعنی جس مسئلے پر دارالعلوم دیوبنداتفاق نہیں رکھتاہے ناکہ ان کے تمام مسئلے پر۔فتویٰ میںیہ کہاگیاہے کہ ڈاکٹرذاکرنائک کوئی محدث نہیں ، نہ کوئی فقیہ ہے اورنہ کہیں سے اس کوسندحاصل ہے۔اسلئے ڈاکٹرذاکرنائک کوچاہئے کہ اسلام کے مسائل کوبتائے اوراس کی تبلیغ کرے ۔جب کوئی مسئلہ پرپھنس جائیں کہ وہ مسئلے کی حقیقت قرآن واحادیث کی روشنی میں کیا ہے توعلماء کرام ، محدثین عظام اورفقہاء کرام سے رجوع کرکے پھراس مسئلہ کوعوام کے سامنے بیان کرے ۔
شکیل صاحب!جس طرح آپ ڈاکٹرذاکرنائک کے قول کوموضوع بناکرچرب زنانی سے کام لے رہے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں وہ اس جگہ میں صرف مٹی ہے ۔اس بات سے میں بھی اتفاق نہیں کرتاہوں کیونکہ حدیث شریف میں مذکورہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ابنیاء کرام کی لاشیں خراب نہیں ہوتی ہیں کہ بلکہ وہ جوں کاتوں رہتاہے۔اب اسکایہ مطلب نہیں کہ وہ شخص خارج اسلام ہوجاتاہے۔جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعامانگنے کی بات ہے یہ اختلافی مسئلہ ہے ،کچھ لوگ اس کے قائل ہیں اورکچھ لوگ نہیں۔اورآپ اس بنیادپراس شخص کودہشت گروں کوفروغ دینے والاکہیں۔میں آپ کوایک اورمثال سے سمجھاناچاہتاہوں کہ بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جناب سرسیداحمدخان واقعہ معراج والی حدیث سے انکارکرتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرسیداحمدخان خارج اسلام ہوگیا۔
قارئین کرام !یہ وہی شکیل شمسی ہے۔ جنہوں نے معروف صحافی ایم ودودساجدصاحب کے مضمون کوروک دیا کہ ایم ودودساجدنے شام کے مسئلے پرظالم بشارالاسدکی گرفت کی اورہندوستانی مسلمانوں کوصحیح صورت حال سے آگاہ کیاتوشکیل صاحب نے یہ کہہ کران کے مضامین کی اشاعت روک دی آپ امریکہ کے خلاف نہیں لکھتے……یہی تک نہیں کہ ثاقب ثنا (جدہ سعودی عرب)نے ’’قصہ ذاکرنائک ‘‘پڑھنے کے بعدکمنٹ کیا تواس کو فیس بک فرینڈلسٹ سے ہی بلاک کردیا۔درج ذیل میں ثاقت ثناکی تحریرملاحظہ فرمائیں:
ہندوستان کے سب سے بڑے اردو اخبار “انقلاب “کے ایڈیٹر جناب شکیل شمسی کا حال دیکھئے۔ جب میں مندرجہ ذیل کمنٹ کیا تو مجھے کچھ دیر بعد ہی “بلاک” کر دیا گیا۔۔۔ شکیل صاحب چاپلوسوں کی ٹولی میں ہی آپ خوش رہئے۔۔۔
شکیل حسن شمسی صاحب۔۔۔۔ آداب عرض ہے۔
آپ کی تحریر کچھ لوگوں کے لئے قابل تعریف ضرور ہوگی، لیکن حقیقت میں آپ کی تحریر نہایت “سطحی اور بازاری” قسم کی ہوتی ہے۔ {البتہ کچھ مضامین اس سے خارج ہیں} آپ نے در اصل سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ دہشت گرد ڈاکٹر نائیک کی تقاریر سے مثاثر نہیں بلکہ شوشل میڈیا پر ان کے فین اور فولوور تھے۔ بنگلہ دیش کے ایک اہم اخبار نے اس کے اوپر پورا ایک مضمون بھی شائع کیا ہے۔
اب فولوور اور فین ہونے کا مطلب آپ خود جانتے ہوں گے، اگر نہیں معلوم ہے تو کسی سے پوچھ لیں۔ آداب صحافت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خبر کے دونوں پہلو کو سامنے پیش کیاجائے۔ ایک دہشت گرد ہندوستانی اداکارہ “شردھا کپور” کا شوشل میڈیا پر فین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ایک سیلفی بھی موجود ہے، آپ نے اس کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ درحقیقت آپ اپنے آقاؤوں کی نمک حلالی بالفاظ دیگر “دلالی” میں دائرہ صحافی سے بہت دور نکل کر مذہبی لیڈر بننے کی ناکام کوشش کر بیٹھے اور صالح فکر ہونے یا نہ ہونے سند بھی عطا کرنے لگے۔۔۔
ویسے ہم قارئین بھی آپ کی مجبوری کو سمجھتے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو بہت جلد شکیل حسن شمسی باہر ہوں گے اور آپ کی جگہ کوئی دوسرا شکیل چشم زدن میں حاضر ہوگا۔۔۔ قلم کو پیچنے والوں کی فہرست طویل ہے، لیکن مسئلہ خریداروں کی کمی کا ہے۔
شکیل شمسی صاحب اگر ڈھاکہ حملہ آوروں میں سے کوئی ایک ذاکر نائک کو سوشل میڈیا پر فالو کرتا تھا اس لئے ڈاکٹر ذاکر نائک دہشت گرد ہوئے تو پھر جس بالی ووڈ اداکار ہ شردھاکپورکا ڈھاکہ حملہ آور فین تھا وہ وطن دوست کیسے ہوگئی؟ اس پرآپ کا قلم کیوں خاموش ہے ،کیوں قلم کوشردھاکپورکے حوالے سے جنبش نہیں دے رہے ہیں؟کیاشوسل میڈیاپرشردھاکپورکے تعلق ہلاک دہشت گردکے فین فلوورکے بارے میں آپ علم نہیں ہے؟دیکھئے آپ سنگھیوں کی چاپلوسی کریں اسی میں آپ کی بہتری ہے تاکہ آپ کی روزی روٹی شان وشوکت کے ساتھ چلتی رہے۔
شکیل صاحب !جہاں آپ آج کے مضمون میں اپنے فین فلوورکی بات کرتے ہیں کہ میر ی دس ہزارفیس بک فرینڈس اورچارہزارسے زائدفلوورس میں سے صرف پچاس ساٹھ افراد نے میری مخالفت کی اوربیشترمخالفین نے مسلکی حملوں اورفحش گالیوں سے ذاکرنائک کا دفاع کیا۔شکیل صاحب آپ کومعلوم ہوناچاہئے کہ غزوہ بدرمیں مسلمان 313تھے جبکہ مخالفین کی تعدادہزاروں سے زیادہ تھی۔اورپوری دنیامیں تقریباًمسلمانو ں کی آبادی 125کروڑیعنی سواارب ہے جبکہ ہندوستان میں تقریباً25کروڑکی مسلمانوں کی آبادی ہے جبکہ تقریباسوکروڑہندوؤں اوردیگرمذاہب کے لوگ ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ کم تعدادوالے کمزورہیں اوروہ حق پرنہیں ہیں ۔(ملت ٹائمز)