دہلی میں سرکاری زمین پر نہیں بنی کوئی مسجد، بی جے پی ایم پی نے ماحول خراب کرنے کیلئے 54 مسجد کے بارے میں کیاتھاجھوٹا دعوی

سال 2005 سے لے کر اب تک حکومت نے مسجد اور قبرستان کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی زمین الاٹ نہیں کی۔ظفر الاسلام خان نے بتایا کہ معاملے کی جانچ کے دوران 6 مسجد اور ایک مدرسہ ایسے ملے جو پرائیویٹ زمین پر بنے تھے
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
قومی دارالحکومت دہلی میں سرکاری زمین پر مسجد اور قبرستان بنانے کے معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جن مسجد اور قبرستان کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم پی پرویش ورما نے غیر قانونی بتایا تھا، ان میں سے کوئی بھی سرکاری زمین پر نہیں ہیں اس کے علاوہ بی جے پی رہنما منوج تیواری نے بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس معاملے میں بی جے پی کے رہنما پرویش ورما کے بیان کے بعد ایک ماہ قبل ’فیکٹ فائڈنگ‘ کمیٹی بنائی تھی جس میں سوشل کارکن سمیت دیگر کو شامل کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کو پیش کرتے ہوئے ظفر الاسلام نے کہا کہ ایم پی پرویش ورما نے جن 54 مقامات کا ذکر کیا، ان پر کسی بھی طرح کی کوئی بھی غیر قانونی مسجد اور قبرستان نہیں ہے ۔ 70 صفحات کی اس رپورٹ کو جلد ہی لیفٹیننٹ گورنر کو بھی سونپ دیا جائے گا۔ظفر الاسلام خان نے کہا کہ ہم نے اس معاملے پر پرویش ورما اور منوج تیواری سے بھی ملنے کی کوشش کی، لیکن ملاقات نہیں ہو سکی ہے ۔ پرویش ورما نے مسجد اور قبرستان کو لے کر جو فہرست جاری کی تھی، وہ عجلت اورمخصوص’ نظریہ‘ کے پیش نظر تیار کی گئی تھی۔ ایسا دہلی کے ماحول کو خراب کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ سال 2005 سے لے کر اب تک حکومت نے مسجد اور قبرستان کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی زمین الاٹ نہیں کی۔ظفر الاسلام خان نے بتایا کہ معاملے کی جانچ کے دوران 6 مسجد اور ایک مدرسہ ایسے ملے جو پرائیویٹ زمین پر بنے تھے۔ اس کے علاوہ دو مزار کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ خان نے بتایا کہ ایم پی پرویش ورما نے اپنی لسٹ میں 8 ایسی جگہوں کا ذکر کیا، جس کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ اس معاملے کی جانچ کے دوران ایک پلاٹ ایسا ملا، جس میں 20 سال سے خالی پڑا تھا۔ اس کو رہنما پرویش ورما نے اپنی فہرست میں مسجد قرار دیا تھا۔ظفر الاسلام خان نے کہا کہ ایم پی پرویش ورما نے مسجد اور قبرستان کو لے کر جو بات کہی، وہ مکمل طور پر غلط اور متعصبانہ ہیں۔ انہوں نے اس کے ذریعے ’مخصوص طبقہ ‘کو ڈرانے کی کوشش کی ہے ؛ اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

SHARE