دہشت گردی کے خاتمہ میں ڈاکٹر ذاکر نائک کا رول

ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی
ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی

ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی
مایہ ناز مناظر ومقرر، علمبردار امن وآشتی، محب وطن ڈاکٹر ذاکر نائک پچھلے پچیس سالوں سے اسلام کے پیغام امن وآشتی کو پوری دنیا میں عام کررہے ہیں۔ سن 1987 میں مناظر اسلام احمد دیدات سے مل کر حوصلہ پانے کے بعد انہوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت شروع کی اور ایم بی بی ایس ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پیشہ کو خیر آباد کہ دیا۔ ایک عصری تعلیم کے بیک گراؤنڈ سے آنے کی وجہ کر انہیں اسلام اور دوسرے ادیان ومذاہب کے گہرے مطالعہ میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ نہایت محنت ولگن اور یکسوئی وجذبہ خالص کے ساتھ اس مہم میں لگے رہے یہاں تک کہ سن 1991 میں انہیں محسوس ہوا کہ اب وہ عوام میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لائق ہوگئے ہیں، تب انہوں نے اس میدان میں پر عزم جذبے کے ساتھ قدم رکھا اور شبانہ روز انتھک محنت کرنے لگے۔ قدرت کی طرف سے انہیں نہایت مثالی ومضبوط حافظہ نصیب ہوا تھا جس نے انہیں اس کام میں کافی مدد بہم پہنچائی، وہ جو بھی پڑھتے ان کے ذہن پر نقش ہوتا چلا جاتا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا میں مثالی مبلغ اسلام اور مایہ مناظر وتقابل ادیان کے ماہر کی حیثیت سے ظاہر ہوئے۔ ان کی گوناگوں صلاحتیوں کو دیکھتے ہوئے احمد دیدات نے انہیں “دیدات پلس” کا خطاب دے دیا اور ایک موقع پر خوش ہوکر انہیں یہاں تک کہ دیا۔ “بیٹے! جو کام تم نے چار سالوں میں کرلیے انہیں کرنے میں مجھے چالیس سال کا عرصہ لگا۔”
ڈاکٹر ذاکر نایک صاحب شروع سے ہی کسی خاص مسلک کی ترویج واشاعت کے بجائے خالص کتاب وسنت کی تبلیغ ودعوت میں لگے رہے اور غیرمسلمین تک اسلام کی دعوت جدید انداز میں پہنچانا شروع کیا، دوسرے مذاہب کے رہنماؤں کے ساتھ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ مناظرہ بھی کیا اور اپنے دلائل کو معروضی انداز سے پیش کرتے رہے، آپ نے اسلام کے اوپر عائد ہونے والے اعتراضات کا مؤثر ومدلل جواب پیش کیا ۔ انہوں نے نئی نسل کے سامنے اسلام کی خالص تعلیمات پیش کیں، انہیں امن وآشتی کی دعوت دی، انہیں مشکل حالات میں بھی صبر سے کام لینے کی تلقین کی ، جس وقت امریکہ دہشت گردی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے عراق وافغانستان پر حملے کررہا تھا، وہاں کے معصوم نہتے مسلمانوں پر بموں کی بارش برسا رہا تھا، مسلمانوں کو ذہنی ونفسیاتی طور پر دہشت میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا تھا، اس وقت بھی انہوں نے مسلمانوں کو صبر کا دامن مضبوطی سے تھامنے کی تلقین کی، کبھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی، اور دے بھی کیسے سکتے تھے جب کہ اسلام نے معصوم جانوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت کو ہمیشہ کوٹ کیا جس میں ایک معصوم جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نایک صاحب نے خود کش دھماکوں اور دھماکہ کرنے والوں کی پرزور مذمت کی۔ یہودیوں کے ذریعہ معرض وجود میں لائے گئے اسلامک اسٹیٹ آف عراق وسیریا کے بارے میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کہا کہ اس دہشت گردانہ تنظیم کو اس نام سے نہ پکارا جائے ، بلکہ اسے اینٹی اسلامک اسٹیٹ آف عراق وسیریا کہا جائے، آپ پوری دنیا میں جاجاکر مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے رہے، آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گردانہ تنظمیوں کے ذریعہ گمراہ کیے جانے والے نوجوانوں کو گمراہ ہونے سے روکتے رہے، ایک سروے کے مطابق اگر ڈاکٹر ذاکرنائک صاحب کی تقریریں نہ ہوتیں تو دنیا میں دھماکے دس گنا زیادہ ہوتے، لیکن ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ امن آشتی کا پیغام عام کیے جانے کی وجہ سے پوری دنیا میں نوے فیصدی دھماکے کم ہوئے ہیں، کچھ ممالک اورحکومتیں ڈاکٹر ذاکر نایک صاحب کی اس اہم کامیابی کا خاموشی سے یا علے الاعلان اعتراف بھی کررہی ہیں، اور انہیں ان ممالک کے ذریعہ اعلی ایوارڈ سے سرفراز بھی کیا جارہا ہے، جو ان کے لیے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ان کی تقریریں دہشت گردی کی نہیں بلکہ امن کی پیامبر ہیں۔
سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ذریعہ انہیں عالم اسلام کے سب سے باوقار ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا،یواے ای کے نائب صدر ووزیر اعظم او ردبی کے حاکم وامیرشیخ محمد بن راشد المختوم کے ہاتھوں دبی انٹرنیشنل ہولی قرآن فار اسلامک پرسنالیٹی 2013 ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ملیشیا کے شاہ نے انہیں 2013 میں ملیشیا کے سب سے باوقار ایوارڈ سے نوازا۔ گامبیا کے صدر اور شارجہ کے امیر نے بھی آپ کی خدمات کی بنیاد پر اپنے ملک کے باوقار ایوارڈ سے نوازا۔ مختلف ممالک میں آپ کی تقریروں اور لکیچرز کے اثرات کی بنیاد پر آپ کومذکورہ اعزازات سے سرفراز کیا گیا، اس کے علاوہ بھی بہت سے اعزازات ہیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں، ان ممالک نے اپنے ملک اور عالم اسلام کے سب سے عظیم اعزازات سے انہیں سرفراز کیا جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ آپ کے لیکچرزاور تقریریں مثبت، مؤثر اور انسانیت ودنیا کے لیے مفید ہیں اور آپ امن وآشتی کے پیامبر ہیں۔
بنگلہ دیش جہاں پیس ٹی بنگلہ کو مسلسل نشر کیا جاتا رہا ہے، اور جہاں حالیہ دھماکہ کے بعد دھماکہ میں ملوث ایک نوجوان کے ذریعہ اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ڈاکٹر نایک کے ایک بیان کو ذکر کرنے کی وجہ سے کافی چہ می گوئیاں ہونے لگی تھیں، بدقسمتی سے کچھ لوگ انہیں دہشت گردی کو فروغ دینے کا علمبردار قرار دینے لگے تھے، کچھ مسلمان نما صحافی بھی اس بات کی تصدیق میں جٹ گئے تھے، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت نے ایک اعلی سطحی حکومتی میٹینگ کے بعد پیس ٹی وی بنگلہ پر پابندی عائد کردی، لیکن حقائق یکے بعد دیگرے سامنے آتے گئے، حکومت مزید تحقیقات میں جٹی رہی، خود ایک بیان بنگلہ دیش کے ایک ذمہ دار سیاسی رہنما کا یہ آیا کہ یہ حملہ موساد اور اسرائیل کی سازش کا شاخسانہ ہے، اس طرح کے اور بھی دوسرے بیانات آئے، ہاتھ جس کا بھی ہو تحقیقات جاری ہیں، البتہ حقائق کی بازیافت کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور وہاں دہشت گردی مخالف مہم پر تعینات اہلکاروں کو لگا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقریریں دہشت گردانہ سوچ کے خاتمہ اور نوجوانوں کوامن کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم رول ادا کررہی ہیں اس لیے فورا چوبیس گھنٹے کے اندر پیس ٹی وی پر لگی پابندی ہٹالی گئی اور اسے پھر شروع کردیا گیا۔
ایک سوال لوگوں کے ذہن میں آنا فطری ہے کہ جب نائک صاحب سے لوگوں کو امن وآشتی کی تعلیم مل رہی ہے تو ان کی تقریریں سن کر بنگلہ دیش کا ایک نوجوان دہشت گردی میں کیوں ملوث ہوا؟ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ اسلام دشمن عناصر اور یہودی لابی کچھ مسلم نوجوانوں کے ذہن کو بگاڑنے میں لگی ہوئی ہے اور انٹی اسلامک اسٹیٹ آف عراق وسیریا کے ذریعہ نوجوانوں کو بہکانے کی کوشش کی جارہی ہے، ممکن ہے وہ نوجوان بھی اس طرح کے غلط عناصر کے ربط میں رہا ہوگا اور نایک صاحب کی تقریروں کا اثر اس کے دل ودماغ تک نہیں پھنچ سکا ہوگا بلکہ سطحی طور پر ان کو سنتا رہا ہوگا اس لیے اس نے نایک صاحب کے کوٹ کو آؤٹ آف کنٹیسکٹ بیان کیا، خود بھی گمراہ ہوا اوردوسروں کوبھی گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب حقیقت واضح ہوگئی ہے، خود ذاکر صاحب نے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس ہزاروں مریض آتے ہیں، وہ علاج کرکے سب کو ٹھیک کرتے ہیں، اتفاقیہ ایک یا دو یا چند موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ڈاکٹر قاتل ہے!!!!! تو ذاکر صاحب انٹی اسلامک اسٹیٹ آف عراق وسیریا اور اس جیسی دوسری دہشت گردانہ تنظیموں کے ذریعہ بگڑے ہوئے ذہنوں کا بھی علاج کرتے ہیں ، ان میں زیادہ تر ٹھیک ہوجاتے ہیں البتہ کچھ بدنصیبوں کو ہدایت نہیں مل پاتی ہے۔
ان کے ایک لیکچر کو ہندؤوں کے مذہبی رہنما ست گرو شنکر اچاریہ نے دہلی کے فکی آڈیٹوریم میں سنا، انہوں نے ان کا لیکچر سننے کے بعد ان کی کافی تعریف کی اور کہا کہ میں اپنی پوری زندگی ڈاکٹر صاحب کی حمایت کرتا رہوں گا۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ دوسروں کے عقائد یا بھگوان یا دوسرے مسلک کا مذاق اڑاتے ہیں،غلط ہے۔
کچھ لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک چوروں، ڈکیتوں، لٹیروں اور زانیوں اور سماج مخالف عناصر کے خلاف دہشت اختیار کرنے کو کہتے ہیں یہ تو گویا دہشت گردی کو بڑھاوا دینا ہے۔ ڈاکٹر نایک اس اعتراض کا جواب خود اپنی جانب سے جاری ویڈیو میں دے چکے ہیں جو ان کے آفیشیل یوٹیوب پیج پر موجود ہے۔ البتہ ان کے اس بیان کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ وہ معصوموں کا قتل کرنے کو کہتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج مخالف عناصر کے خلاف متحد ہوں، ان کی حرکتوں پر نظر رکھی جائے، ان کے خلاف کارروائی میں حکومت اور پولس او رخفیہ ایجنسیوں کی مدد کی جائے، اگر بیٹا بھی سماج وامن مخالف ہے تو باپ اس کی خبر پولس اور خفیہ ایجنسی کو دے، تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے، چونکہ لوگ ڈاکٹرنایک کے اس طرح کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، اس لیے ڈاکٹر صاحب نے ایسے بیانات دینے چھوڑ دیے ہیں اور وہ بیان چند سالوں پہلے کا ہے۔ میڈیا کو پچیس سال کی ان کی تقریروں میں کچھ نہ ملا تو صرف اس ایک یا دو بیان کو لے کر ہنگامہ کررہی ہے اور دہشت گردی سے لڑنے والے اس مرد مجاہد کی شخصیت کو داغدار کرنے پر تلی ہوئی ہے، ارنب گوسوامی جیسا بکا ہوا صحافی واینکر مسلمانوں کے مابین دہشت پھیلارہا ہے اور ان پر ذہنی ونفسیاتی حملہ کررہا ہے، ہمیں ارنب جیسے سماج مخالف عناصر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جو بھی ذاکر صاحب کی کاوشوں کو داغدار کرنے کی کوشش کرے اس کا دندان شکن جواب دینا چاہیے۔ ہمیں خوشی ہے کہ مہاراشٹرا کی انٹلی جینس ایجنسی نے اپنی تحقیقات کے بعد ڈاکٹر صاحب کو کلین چٹ دے دیا ہے۔ امید ہے کہ ہمارا پیارا ملک اور ہماری حکومت آئندہ بھی ضرور انصاف سے کام لے گی اور ذاکر صاحب کو خصوصی سیکوریٹی فراہم کرے گی کہ وہ امن وآشتی کا پیغام بلا خوف خطر پھیلا سکیں اور ہمارے ملک کو دہشت گردوں کے خطرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکیں۔
رہے نام اللہ کا
(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار رحیق گلوبل اسکول کے ڈائریکٹر ہیں)

SHARE