لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے پر کارگل میں عوام کا شدید احتجاج ۔ بی جے پی حکومت سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ

کارگل میں 46 فیصد مسلمان ہیں جبکہ لیہہ میں 39 فیصد بڈھسٹ ہیں ۔بڈھسٹوں کا ایک الگ اسٹیٹ کا مطالبہ تھا جبکہ مسلمان ہمیشہ ا س کے خلاف رہے ہیں
کارگل (ایم این این )
جموں وکشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرنے اور لداخ کو الگ صوبہ بنانے کی مخالفت مسلسل بڑھتی جارہی ہے کارگل کی عوام سراپا احتجاج بن چکی ہے ۔گذشتہ بدھ کولداخ کی سرحد پر واقع مسلم اکثریتی علاقے کارگل میں نئی دہلی انتظامیہ کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہنداتوا کے ایجنڈے پر گامزن بی جے پی حکومت کو ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کارگل کی دینی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری کردہ بیان میں عوامی رائے لئے بغیر علاقے کے بارے میں اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔بیان میں حکومت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف علاقے بھر میں کاروباری مراکز اور اسکولوں کو بند کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔کارگل کے سابق اسمبلی ممبر اصغر علی کربلائی نے بھارت کے جمّوں و کشمیر سے متعلق فیصلے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ “یہ بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے اور کشمیری عوام اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے”۔کربلائی نے کہا ہے کہ” لداخ کی کشمیر سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والی لیھ قوم تھی ہم نہیں، کارگل ، دین، زبان اور علاقائی بنیادوں پر علاقے کی تقسیم کے خلاف ہے”۔
واضح رہے کہ بی جے پی حکومت نے نصف صدی سے طویل عرصے سے جاری جمّوں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی حامل آئینی شق نمبر 370 کو ختم کر کے علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے اور لداخ کو کشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام صوبہ بنادیاہے ۔ یہاں کارگل میں 46 فیصد مسلمان ہیں جبکہ لیہہ میں 39 فیصد بڈھسٹ ہیں ۔بڈھسٹوں کا ایک الگ اسٹیٹ کا مطالبہ تھا جبکہ مسلمان ہمیشہ ا س کے خلاف رہے ہیں ۔