امّاں جان 

ماں کی محبت میں ڈوب کر اک دلجلے بیٹے کی خونِ جگر سے لکھی ہوئی داستانِ داغِ مفارقت

       جمشيد جوہر 

پڑوس کی قریبی عورتوں نے غسل دینے کے بعد اماں جان کو چارپائی پر ڈال کر آخری دیدار کے لئے بیچ صحن میں رکھ دیا۔

خوشبو میں بسے ہوئے سفید کپڑوں میں ملبوس آج اماجان تمام تفکرات سے بے فکر ہوکر گہری نیند سورہی تھیں

کیوں نہ سوتیں،

زندگی کے طویل سفر سے انھیں جو آج ہی آرام ملاتھا 

میں اماجان کے سرہانے جاکر ٹھیک چہرے کے روبہ رو سراپاۓ ادب ہوکر کسی پتھر کے مجسمے کی طرح کھڑا ہوگیا

آہ ہہہہہہہہ زندگی کی ساری نیرنگیاں اور رعنائیاں کھونے کے باوجود بھی آج یہ بوڑھا چہرہ کس قدر گُلنار ہورہا تھا 

چہرے کی جھریوں سے پانی کے قطرے سچے موتیوں کی مانند چمک رہے تھے اور ہر قطرہ اپنے اندر گویا ایک اک سورج سمویا ہوا تھا

اس پر معنی خیز تبسم کی لکیریں جنت اور مغفرت کا پتہ بتا رہی تھیں

میں مسلسل دیکهے جارہا تھا بس دیکھے ہی جارہا تھا

اس خیال سے کہ اب اس مقدس کتاب کی تلاوت کبھی نصیب نہیں ہوگی

دل کے تہ خانے میں اک طوفان مچا ہوا تھا جس کے شرارے رہ رہ کے آنکھوں کے راستے نکل رہے تھے

جی تو چاہ رہاتھا چیخ چیخ کے دہاڑیں مار کے روؤں

مگر عقل کہ رہی تھی جوش میں ہوش کھونا نہیں۔

دیکھتے دیکھتے اب میری آنکھیں پتھرانے لگیں، مجھ پر غنودگی کی کیفیت طاری ہونے لگی

اور میں ماضی کے عمیق سمندر میں ڈوبتا چلا گیا

بہو اے بہو اری سنتی ہو

کوٸیں کے پاس برتن مانجھتی ہوئی عورت سے اما جان مخاطب تھیں۔

جی اما کیلئے نا سن رہی ہوں

عورت بولی

ارے بہو کمال ہوگیا

جانتی ہو آج رات میرے منے نے تراویح کی نماز میں پانچ پارے پڑھ ڈالے

ارے ابھی تو اس نے دَور بھی نہیں کیاہے 

پہلی بار محراب سنایا ہے

ہے نا خوشی کی بات؟

اماجان کی بانچھیں کھل رہی تھیں

اور جس دن دستار بندی ہوئی اس دن تو پھولے نہیں سمارہی تھیں

خود اپنے ہاتھ سے سب کا منھ میٹھا کرارہی تھیں

متعدد بار ایسا ہوا کہ آدھی رات کو سفر سے واپسی ہوئی تو ڈانٹنے لگیں اتنی رات آتے ہو بڑی تشویش رہتی ہے ہم لوگوں کو۔ چونکہ ہمارا تعلق جنگلی علاقے سے ہے گھر تک آنے میں آج سے پندرہ سال قبل گاؤں کے نزدیک گذرنے والے دریا میں پُل بھی نہیں بنا تھا دریا کے نشیب و فراز کا اندازہ معلوم تھا اس لئے بلا خوف و خطر اتر جاتا تھا چنانچہ اسی دریا میں مَیں نے تیرنا سیکھا تھا ۔

فرمانے لگیں ہر انسان کے دوست کے ساتھ دشمن بھی ہوا کرتے ہیں کیا پتہ کون کہاں کس تاک میں بیٹھا ہو۔

خبردار آئندہ اتنی رات مت آنا ۔

کتنی شفقت تھی اس ڈانٹ میں ۔ 

اس زمانے میں ہمارے گاؤں میں بجلی بھی نہیں بھی آئی تھی لوگ روشنی کے لئے دئیے ۔ ڈھبری۔ لالٹین۔ لیمپ کا سہارا لیتے تھے اور تقریبات میں پیٹرومیکس جلا لیتے تھے ۔

مجھے خوب یاد ہے میرے منجھلے بھاٸی کی شادی تھی ہمارے تاؤ جہاں پیٹرومیکس جلانے کی تیاری کر رہے تھے وہاں ہمارے ہم عصربچوں کی بھیڑ قابل دید تھی چونکہ یہ تقریب میرے گھر پر تھی اس لئے میں کچھ زیادہ ہی اُتاولا ہوکر اچھل کود کر رہاتھا کہ اسی اچھل کود میں میرے جوتے کے نیچے ایک خطرناک سیاہ رنگ کا بچُّھو آکر کُچل گیا، بس اک شور بلند ہوا،کہ میں نے ایک بچھو مار دیا ہے۔ بھلے ہی یہ ایک اتفاقی کام تھا مگر اما جان نے اس واقعہ کو میری بہادری پر محمول کیا اور کہنے لگیں میرا بیٹا بڑا بہادر ہے ۔

میں بچپن میں انتہائی لاغر تھا اس لئے احساسِ کمتری کا شکار ہوگیا تھا

گم صم رہنے پر میرے احساس کو اماجان نے تاڑ لیا 

ایک دن فرمانے لگیں بیٹا تم دہی چھوڑ کر دودھ پیاکرو حالانکہ مجھے دہی مرغوب تھا۔

البتہ دودھ کی بالائی مجھے بیحد پسند تھی بس اس کمزوری کی تکنیک کو اماجان نے کام میں لایا ۔ گھر میں دودھ کی کمی نہیں تھی ہمیشہ ایک عدد بھینس گھر میں بندھی رہتی تھی والد صاحب کھڑاؤں پہن کر دودھ نکالا کرتے تھے کبھی خود اما جان دودھ دوہ لیا کرتی تھیں ۔

تو میں عرض کررہاتھا اماجان کی نئی تکنیک کے بارے میں

اماجان نے ایک پاؤ دودھ کے اوپر بالائی رکھ دی اور کہا بیٹا یہ کھاؤ چنانچہ اس دن سے کھانے بھی لگا اور پینے بھی ۔

ایک بار میں اپنے دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ اماجان آواز لگانے لگیں منے او منے آکے دودہ پیلے 

حالانکہ وہ سادگی میں پکار رہی تھیں۔ مگر دوستوں کو مذاق سوجھا وہ لوگ مجھے شرمندہ کرنے لگے ابے یار اتنا بڑا ہوکرابھی بھی دوده پیتا ہے۔

میں نے عرض کیا کہ میں بچپن میں بہت لاغرتھا میں گھر سے باہر دوستوں میں کھیل رہا تھا کہ کھیل کھیل میں باہم یہ مشورہ ہوا کہ چلو آج شری کانت چچا کی دکان چلتے ہیں۔

اور ہم سب گھر والوں کو بلا اطلاع کے چلے گئے 

آج صبح سے ہی موسم کامزاج بگڑا ہواتھا

دفعتًا زور دار ہواؤں کے ساتھ بارش شروع ہوگئی اور ہم لوگ وہیں پھنس کر رہ گئے ۔

اِدھر گھر میں قیامت کا عالم تھا میں دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے یہ اندیشہ گھر والوں کو ہونے لگا کہ پتا نہیں آندھی مجھے اڑاکر کہیں لے تو نہیں گئی۔

اور مجھے یہ فکر ستارہی تھی کہ آج تو خیر نہیں ۔

خدا خدا کرکے 

 بار ش تھمی تو گھر آیا تواماجان کی جان میں جان آٸی 

دیر تک گلے لگائے روتی رہی 

ادھروالد صاحب گلاس لئے بغير ہی ایک بَدھنا{لوٹا} پانی ایک ہی سانس میں پی گئے ۔

میری تلاش میں جو انتہائی درجے کی پیاس لگ گئی تھی۔

بارش کے زمانے میں ایک بار دریا میں چھلانگ لگایا توہمّت کرکے دریا پارکرلیا اس طرح کا یہ پہلا معرکہ میں نے سرکیا تھااور یہ سوچا کہ جاکر اماجان سے اس شجاعت کا تذکرہ کروں گا 

اور وہ مجھے شاباشی کا تمغہ پیش کریں گی۔

مگر ایسا کچھ نہیں ہوا

بلکہ الٹا عتاب کا شکار ہونا پڑا

جیسے ہی میں نے اس واقعے کو چھیڑا اما جان سٹپٹا کر رہ گئیں 

کہنے لگیں جوانی آگئیں، بہادری دکھانے لگے۔ آنے دےتیرےابو کو پھر تجھے بتاتی ہوں ۔

بس میں نے کان پکڑلیا کہ اب آٸندہ کوٸی بات انہیں،نہیں بتاؤنگا۔ 

جنازہ اٹھاؤ جنازہ اٹھاؤ

 دیر ہورہی ہے ایک بزرگ کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی تصورات کا لامتناہی سلسلہ ٹوٹ گیا

وہ ذات کہ جس کی کوکھ میں ایک زمانے تک پلتارہا، خونِ جگر پیتا رہا 

آج اُسے خاک کے حوالے کر نے پر مقدر نے مجبور کردیا تھا ۔

آہ ۔۔۔۔ وقت کی یہ کیسی ستم ظریفی تھی کہ جس کے کاندھو ں پر کل تک میں سواری کرتا تھا آج وہی میرے کاندھے سوار ہے

لو آگئیں اما جان کی آخری منزل۔ قبرستان کے گرد انسانوں کا اک ہجوم تھا۔ جو اماجان کی دعائے مغفرت کے لۓ حاضر تھا۔

اذان تو بہت پہلے ہوچکی تھی 

اماجان! اب لوگ تیری نماز پڑھنے کے لۓ حاضر ہیں 

آہ ہہہہہ کس بے دردی سی لوگ مٹی ڈال رہے تھے اور میں

کانپتے ہاتھوں سے قبر کی مٹی کو برابر کرتا جا رہاتھا 

    کچھ ہی دیر میں اماجان منوں مٹی کے نیچے تھیں

لیکن ابھی بھی لگتا ہے اماجان کے یہ جملے میری سماعت سے ٹکراکر بازگشت کرتے رہتے ہیں

جوانی آگئی ہے تجھے ، بہادری دکھانے لگے 

گھر آنے دے تیرے ابو کو پھر بتاتی ہوں ۔

تیرے ابو کو پھر بتاتی ہوں

تیرے ابو کو ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بے ساختہ پا گلوں کی طرح

میں رونے لگتا ہوں

یہ سزنش بھرا جملہ بھلے ہی تصور میں آتا ہے مگر مجھے تھوڑی دیر ہی کے لئے سہی یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے 

کہ اماجان یہیں کہیں ہیں۔

اور انھیں نہ پاکر واقعی میں خلاؤں میں گھورنے لگتا ہوں 

ساتھ ہی آنکھوں میں یادوں کے ڈھیر سارے جُگنو جھلملانے لگتے ہیں

اور اشکبار ہوکر میں گنگنانے لگتا ہوں۔

دل کے داغوں کو تری یاد سے دھولیتا ہوں

اپنے دامن کو یوں اشکوں سے بھگولیتا ہوں

گھرسے باہر میں نکلتا ہوں مری ماں! جب بھی

تری تُربت سے گذرتا ہوں تو رو لیتا ہوں

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں