جسٹس اشوک بھوشن نے سوال کیا کہ کیا گواہوں کے بیانات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں نماز بھی ہوتی رہی ہے۔ اس پر مسٹر وید ناتھن نے کہا کہ اس پر وہ آگے گفتگو کرےںگے
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
آج چیف جسٹس رنجن گو گوئی کی قیادت میں ۵ رکنی بنچ کے سامنے رام للا کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ مسٹر سی ایس ویدناتھن نے اپنی بحث جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آثار قدیمہ کی کھدائی، غیرملکی سیاحوں اور گواہوں کے بیانات سے ےہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جگہ ہمیشہ سے رام جنم بھومی کی حیثیت سے ہی استعمال ہوتی رہی ہے لہذا اس کے تقدس کو بحال کیا جائے۔اس موقع پر جسٹس اشوک بھوشن نے سوال کیا کہ کیا گواہوں کے بیانات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں نماز بھی ہوتی رہی ہے۔ اس پر مسٹر وید ناتھن نے کہا کہ اس پر وہ آگے گفتگو کرےںگے۔
انہون نے آگے کہا کہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں ایک پتھر کا سلیب ملا ہے جس میں سنسکرت میں لکھا ہوا ہے جو باروین صدی کا ہے، جو راجا گونداُچندرا کے زمانے کا ہے۔ گوند چندرا ساکیتا منڈلا کا راجا تھا جس کا پائے تخت ایودھیا تھا۔ یہاں پر ایک بڑا وشنو کا مندر تھا۔ میرے خیال میں اسی مندر کو توڑ کر یا اسی کے ملبے پر مسجد تعمیر کی گئی۔
جہاں تک سلیب پر لکھی سنسکرت کی عبارت ہے کا تعلق ہے اس کے ترجمہ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے البتہ سلیب کے موجودگی کو ہی چیلنج کیا گیا ہے۔ مسلم گواہوں کی گواہی کو مسٹر ویدناتھن نے پیش کرنا شروع کیا تو انہوں نے جسٹس بھوشن کے اس سوال کو نظر انداز کردیا کہ مسلمانوں کے اس جگہ پر نماز پڑھنے کی کوئی شہادت بھی سامنے آئی تھی یا نہیں۔ اس کے برعکس انہوں نے کہا کہ مسلم گواہان نے صراحت سے یہ کہا کہ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے اگر کوئی مسجد بنائی جائے گی تو وہ شر عا مسجد نہیں ہوگی۔ مسٹر وید ناتھن کی بحث نامکمل رہی جو کل بھی جاری رہے گی۔
اس موقع پر مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمیعت علماءکے مشترکہ سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی ارورہ بھی کورٹ میں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ جناب شکیل سید، جناب ایم آر شمشاد، جناب اعجاز مقبول، جناب ارشاد احمد اورُجناب فضیل احمد ایوبی اور ان کے جونیئر بھی کورٹ میں موجود تھے۔






