ہندووں کے پاس اس جگہ کا اختیار محدود مالکانہ حق نہیںدیا جاسکتا، ایڈوکیٹ شیکھرنافڈے
نئی دہلی (ایم این این )
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج 33واں دن تھا جس کے دوران مسلم پرسنل لاءبورڈ کی وکیل میناکشی اروڑا نے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ قانون شہادت( Evidence Act)کی دفعہ 45 کے تحت محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ بس ایک رائے ہے اس کی قانونی حیثیت بہت زیادہ نہیں ہے ۔الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں جسٹس اگروال نے اسے قبول بھی کیا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ محض ایک رائے ہے ۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ محکمہ آثار قدیمہ (ASI)کی رپورٹ فرضی ہے جس کی بنیاد ہی غلط ہے کیونکہ آرکیالوجی کا انحصار سائنس پر ہے اور سائنس میں کوئی بھی چیز پختہ نہیں ہوتی بلکہ صرف سروے اور ریسرچ کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرلیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں تیار کی گئی رپورٹ مشکو ک ہے لہذا عدالت کو اسے قبول کرنے سے قبل دیگر تاریخی ثبوت وشواہداورگواہوں کے بیانات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔میناکشی اروڑا کی بحث کے درمیا ن جسٹس بوبڑے نے کہا کہ وہ صرف یہ دیکھیں گے کہ آیا ریسرچ اور سروے کی بنیاد پر اخذ کیا گیا نتیجہ قانونی ہے یا نہیں ۔اس معاملے کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوڑ، جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو مزید بتایا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ اور گواہوں کے بیانات میں کھلا تضاد ہے نیز متعدد ہائی کورٹ کے فیصلوں کے مطابق کمشنر سے جرح کرنا ضروری ہے اور اگر کمشنر سے جرح نہیں ہوئی ہو تو کمشنر کی رپورٹ پر اعتراض کرنے کے لیئے آزاد گواہوں کی گواہی کو اہمیت دینا چاہئے۔ایڈوکیٹ میناکشی اروڑا نے کہا کہ الہ آباد ہائیکور ٹ نے محکمہ آثار قدیمہ سے دریافت کیا تھا کہ آیا کھدائی کے دوران وہاں رام جنم استھان ہونے کا انہیں ثبوت ملا تھا یا نہیںنیز محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ سے ایسا کوئی بھی نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ انہیں کھدائی کے دوران رام جنم استھان ملا تھابحث کے دوران جسٹس عبدالنظیر نے کہا کہ آثارقدیمہ پوری طرح سے سائنس نہیں ہے۔ ایسے میں اس پر سیکشن 45لاگو نہیں ہوگا ، اس پر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑانے دلیل دی کہ محکمہ آثارقدیمہ کی رپورٹ کی جانچ ہونی چاہئے کیونکہ متعددماہرین نے اس پر سوال کھڑے کئے ہیں اس پر جسٹس بوبڑے نے کہاکہ ہمیں پتاہے کہ محکمہ آثارقدیمہ کی طرف سے نتائج نکالے جاتے ہیں یہاں اصل ثبوت کون لاسکتاہے ؟ ہم یہاں اسی بنیادپر فیصلہ لے رہے ہیں کہ کس کا اندازہ درست ہے اور کیامتبادل ہے ؟ اس پر میناکشی اروڑا نے کہا کہ محکمہ آثارقدیمہ کی رپورٹ میں کہیں بھی رام مندرکی جگہ نہیں بتائی گئی جبکہ رام چبوترے کو واٹرٹینک بتایاگیا ہے ۔اسی درمیان سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑا کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد مسلم پرنسل لاءبورڈ کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ شیکھر نافڈے نے عدالت سے کہا کہ Res Judicata یعنی کہ ایک مرتبہ کسی معاملہ کی سماعت مکمل ہوجانے اور فیصلہ آجانے کے بعد اس سوال پر دوبارہ مقدمہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایاکہ سب سے پہلے 1885 میں نرموہی اکھاڑہ نے سوٹ داخل کیا تھا جسے فیض آباد سول کورٹ نے خارج کردیا تھا اس کے بعد 1961میں پھر مالکانہ حق کے لیئے سوٹ داخل کیا گیا جہاں پھر نرموہی اکھاڑہ کو مایوسی ہاتھ لگی اور ان کا سوٹ نچلی عدالت سے خارج کردیا گیا لہذا یہ ریسٹ جوڈیکا کا معاملہ بنتاہے یعنی کہ ایک ہی مقصد کے لئے بار بار سوٹ داخل نہیں کیاجاسکتا ۔شیکھر ناپھڑے کی اس بحث پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ 1885 میں نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے نہیں بلکہ ایک مہنت نے سوٹ داخل کیا تھا لہذ ا آج یہ کہنا کہ ہندو فریق دوبارہ مقدمہ داخل نہیں کرسکتے درست نہیں ہوگا جس پر نافڈے نے کہا کہ یہ تو صاف ہے نا کہ 1885 میں جو سوٹ داخل کیا گیاتھا وہ چبوترے پر پوجا کرنے کا حق حاصل کرنے کے لے کیا گیا تھا۔ انہوں نے عدالت میں دلیل دی کہ ہندووں کے پاس اس جگہ کااختیارمحدودہے اس لئے انہیں مالکانہ حق نہیں دیا جاسکتا، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس چبوترے کا حق تو ہے لیکن وہ مالکانہ حق حاصل کرنا چاہ رہے تھے اور ان کی طرف سے مسلسل ناجائز قبضہ کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں، آج عدالت کی کارروائی ایک بجے تک چلی ، ایڈوکیٹ نافڈے نے پیر کے دن دوبارہ اپنی بحث کا آغاز کریں گے۔
دوران بحث چیف جسٹس نے آج ایک بارپھر یاددہانی کرائی کہ بحث 18اکتوبر تک مکمل ہونی چاہئے ورنہ فیصلہ جلدآنے کا امکان کم ہوسکتاہے ، بحث کے درمیان ڈاکٹرر اجیو دھون نے کہا کہ آرکیالوجی سائنس نہیں ہے لہذا اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی ہے البتہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کو دیگر ثبوتوں اور شواہد سے ملاکر دیکھنا چاہئے اس کے بعد ہی معقول نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے






