خبر در خبر (619)
شمس تبریز قاسمی
مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بالکل بھی خلاف توقع نہیں ہیں بلکہ اندازہ یہ لگایا جارہاتھا کہ عام انتخابات کی طرح دونوں صوبوں کے انتخابات میں بھی اپوزیشن کا صفایا ہوجائے گا اور بی جے پی تاریخی جیت حاصل کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ 2014 کے مقابلے میں بی جے پی کو دونوں صوبوں میں نقصانات کا سامنا کرناپڑا ہے ۔ مہاراشٹرا میں کل 288 سیٹیں ہیں جہاں حکومت سازی کیلئے 144 سیٹیں مطلوب ہوتی ہیں ،بی جے پی اور شیوسینا نے مشترکہ طور پر 160 حلقوں میں جیت حاصل کرکے یہ تعدادحاصل کرلی ہے تاہم گذشتہ انتخابات میں اسے 185 سیٹوں پر جیت ملی تھی ۔ حالیہ انتخابات میں شیو سینا حکومت سازی کے دوران بی جے پی کیلئے مشکلات بھی کھڑی کرسکتی ہیں کیوں کہ بی جے پی صرف 100 سیٹوں پر محدود ہوگئی ہے اور 60 سیٹیں شیو سینا کی ہے جس کا مطالبہ ادھوٹھاکرے کے بیٹے کو وزیر اعلی بنانے کاہے ۔ ہریانہ میں کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے تاہم 40 سیٹیں حاصل کرکے بی جے پی مطلوبہ تعداد کے بہت قریب پہونچ گئی ہے ،جے جے پی یا دیگر آزادامیدوار کے سہارے وہ بآسانی حکومت بنالے گی ۔ کانگریس کی کارکردگی یہاں شاندار رہی ہے ۔2014 میں صرف پندرہ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اس مرتبہ کانگریس کو 32 سیٹوں پر جیت ملی ہے تاہم کانگریس سرکار نہیں بناسکتی ہے۔
ہریانہ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہاں شدت پسندی زیادہ پائی جاتی ہے ،ہندتوا کی یہ آماجگاہے۔ فوجی بھی یہاں سے بڑی تعداد میں تعلق رکھتے ہیں لیکن نتیجہ بتارہاہے کہ بی جے پی کے اس فلسفہ کو یہاں کے عوام نے مسترد کردیاہے ۔مہاراشٹرا بھی میں اس طرح کا نتیجہ نہیں آیاہے جس طرح بی جے پی ہندو مسلم پورے معاملے میں کررہی تھی۔ بہرحال جو جیتا وہی سکندر اور بی جے پی دونوں صوبوں میں اپنی سرکار برقرار رکھنے میں کامیا ب تقریبا ہوچکی ہے ۔
مہاراشٹر ا میں اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہت جو ش وخوش کے ساتھ اس مرتبہ الیکشن لڑرہی تھی تاہم نتیجے سے مایوسی ہوئی ۔ حالیہ انتخابات میں مجلس نے 44 سیٹوں پر اپنا امیدوار اتاراتھا ،اندازہ یہی تھا کہ کم ازکم پانچ سیٹوں پر جیت مل جائے گی لیکن پارٹی گذشتہ مرتبہ کی طرح دوسیٹوں پر محدود ہوگئی اور تقریبا دس سیٹوں پر اس کے نمائندے دوسرے نمبر پر رہے ۔قابل ذکر یہ ہے کہ 2014 میں مجلس کو جن دو سیٹوں پر کامیابی ملی وہ دونوں اس مرتبہ ہاتھ سے نکل گئی اور ان کے پہلے فاتح امیدوار وارث پٹھان اپنی جیت برقرار نہیں رکھ سکے ۔ امتیاز جلیل کی سیٹ بھی ہاتھ سے نکل گئی اور اورنگ آباد میں کسی بھی سیٹ پر جیت نہیں مل سکی ۔ مالے گاﺅں میں مجلس کے ٹکٹ پر مفتی اسماعیل قاسمی نے جیت حاصل کی اور دھولیہ میں مجلس کے امیدوار شیخ فاروق انورفتحیاب ہوئے ۔
مہاراشٹرا میں مایوسی ضروری ملی تاہم بہار سے مجلس کے کارکنان کیلئے خوشخبری آئی اور پانچ سالوں کی مسلسل کوششوں کے بعد مجلس اپنا کھاتا وہاں کھولنے میں کامیاب ہوگئی ۔ ایم آئی ایم بہار کے سیمانچل میں 2015 کے اسمبلی انتخابات میں چھ امیدوار وں کے ساتھ میدان میں اتری تھی لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کشن گنج سے اختر الایمان کی جیت یقینی سمجھی جارہی تھی لیکن 70 ہزارووٹوں سے شکست کا سامناکرنا پڑا ۔ اب اللہ تعالی نے نظر کرم کیا او رضمی الیکشن میں مجلس کے امیدوار قمر الہدی نے جیت کا پرچم بالآخر لہرادیاہے ۔ بہار میں مجلس کی جیت کی شروعات ہوگئی ہے اور اگر ابھی سے تیاری کی جائے گی تو اگلے سال ہونے والے انتخابات میں مجلس وہاں مزید مضبوط اور فعال ہوسکتی ہے ۔
مہاراشٹرا اور ہریانہ کے ساتھ 51 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کیلئے بھی 21اکتوبر کو ووٹ ڈالے گئے تھے جس کا آج ساتھ میں نتیجہ آیا ۔ ان حلقوں میں آسام کی جانیہ سیٹ کا تذکرہ ضروری ہے جہاں سے آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے ٹکٹ پر ڈاکٹر رفیق الاسلا م نے جیت حاصل کی ہے ۔ ان کے مقابلے میں کانگریس کے امیدوار شمس الحق تھے جنہیں شکست کا سامناکرناپڑا ۔ آسام میں اس کے علاوہ مزید تین سیٹوں پر انتخابات منعقد ہوئے ہیں جہاں مولانا بدرالدین اجمل نے اپنی پارٹی یو ڈی ایف کا کوئی نمائندہ کھڑا نہیں کیاتھا ۔ وہاں براہ راست لڑائی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان تھی لیکن کانگریس ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ۔ یہاں ٹھہرکر مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے ان دانشوروں سے ایک سوال ضروری ہے جو کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کی شکست کیلئے ہمیشہ مسلمانوں یا مسلم لیڈر شپ والی سیکولر پارٹیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔اب یہاں کس کی وجہ سے کانگریس شکست کھاگئی ؟۔ مہاراشٹرا اسمبلی الیکشن میں کانگریس اور این سی پی بہت ڈھیلا ڈھالا الیکشن لڑرہی تھی ۔ نتیجہ آنے کے بعد کانگریس نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیاہے کہ بی جے پی کی سیٹیں کم آئی ہیں لیکن مسلم دانشوران اسد الدین اویسی کو لعن طعن کرنے لگے ہیں کہ ان کی وجہ سے این سی پی او رکانگریس کی 30 سیٹیں کم آئی ہیں ۔ برسبیل تذکرہ ہریانہ کے بارے میں بھی جان لیجئے ، وہاں چھ ماہ قبل ایک پارٹی بنی ہے” جن نایک جنتا پارٹی“ ۔ حالیہ الیکشن میں10 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے ۔ اس کے لیڈر دشیانت چوٹالہ ہیں جو جاٹوں کی سیاست کرتے ہیں ۔ بھوپندر سنگھ ہڈا بھی جاٹوں کے بڑے لیڈر ہیں جن کے کندھے پر کانگریس کی ذمہ داری تھی ۔بتانا یہ ہے کہ کسی بھی جاٹ نے دشیانت چوٹالہ کو لعن طعن نہیں کیا ہے کہ اس کی وجہ سے کانگریس کی بیس سیٹیں کم آئی ہیں ، ووٹ کا بٹوار ہواہے یا بی جے پی کا نقصان ہوا ہے ۔ یہ مرض صرف مسلمانوں تک محدود ہے جو ہمیشہ سیکولر پارٹیوں کی شکست کا ٹھیکرا خود اپنے سر پر پھوڑتے ہیں ۔ اپوزیشن میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے صرف اپنی خامیاں تلاش کرتے ہیں ۔
مہاراشٹر ا میں دس مسلم نمائندوں نے جیت حاصل کی ہے جس میں ایک عبد الستار نبی کو شیو سینا کے ٹکٹ پر کامیابی ملی ہے ۔ ہریانہ میں تین مسلم نمائندے اسمبلی پہونچنے میں کامیا ب رہے جبکہ دو مسلم امیدوار دوسرے نمبر پر رہے ۔یہاں بی جے پی نے دو مسلمانوں کو بھی ٹکٹ دیاتھا جنہیں جیت نہیں مل سکی۔ اس کے علاوہ ضمنی انتخابات میں بھی تقریبا 6 مسلمانوں کو جیت ملی ہے جس میں رامپور کی سیٹ پر اعظم خان کی بیوی ڈاکٹر تزئین فاطمہ کی فتح سہر فہرست ہے ،کئی ایک سیٹوں کا تذکرہ اوپر میں بھی ہوچکاہے ۔
مہاراشٹرا میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو بھلے ہی دو سیٹوں پر جیت مل سکی ہے تاہم ووٹ شیئر کے اعتبار سے وہ رائے دہندگان کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیا ب رہی ہے ۔ مجلس کی شکست کہیں کانگریس اور این سی پی کی وجہ سے ہوئی ہے اور کچھ جگہوں پر پرکاش امبیڈ کر کی پارٹی ونچت بہوجن اگھاڑی سے اتحاد ٹوٹ جانے کا بھی نقصان ہوا ہے ۔مسلمانوں نے مجلس کو ووٹ دیکر واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں اب مسلمان ایم ایل اے اور ایم پی نہیں چاہیے بلکہ ہم اقتدار میں حصہ داری چاہتے ہیں ۔ ہم پالیسی ساز گروپ کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔ ہمارے لوگوں کو ٹکٹ دینے کے بجائے ہماری قیادت والی پارٹیوں کو اتحاد میں شامل کیا جائے ورنہ اسی طرح شکست کا سامنا کرناپڑے گا ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com