ہندوستان میں عیسائیوں پر حملے کے واقعات میں اضافہ ۔اتر پردیش میں سب سے زیادہ

نئی دہلی :ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھی غیر محفوظ ہیں اور مسلسل ماب لنچنگ ۔ہجومی شدد اور دیگر طرح حملوں کے شکار ہورہے ہیں ۔ اس سال پہلے کے مقابلے میں عیسائیوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ درج کیا گیا ہے اور عیسائی طبقہ میں بھی بے چینی اور پریشانی بڑھنے لگی ہے ۔عیسائیوں پر حملے اور ہونے والے تشدد پر نظر رکھنے والی آر گنائزیشن الائنس ڈیفنڈنگ فریڈم نے انکشاف کیا ہے کہ اس سال یعنی 2019 کے ستمبر تک ملک میں عیسائیوں پر 247 حملے ہوئے اور صرف 28 معاملوں میں ہی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر ماہ میں ہی عیسائیوں پر 29 حملے ہوئے۔ اس طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران ہوئے حملوں میں اس سال ہوئے حملوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے۔ ستمبر میں ہوئے سبھی معاملوں کی رپورٹ پولس میں درج کرائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور انکشاف جو اس رپورٹ میں ہوا ہے اس کے مطابق عیسائیوں پر حملوں کے معاملے میں اتر پردیش سرفہرست ہے۔ یہاں ستمبر تک کل 60 معاملے سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر تمل ناڈو کا ہے جہاں 47 حملوں کی جانکاری ملی ہے۔ ان دونوں ریاستوں کے بعد چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، کرناٹک اور مہاراشٹر کا نمبر ہے ۔چھتیس گڑھ میں 25، جھارکھنڈ میں21 ،کرناٹک اور مہاراشٹرا میں 18 معاملے سامنے آئے ہیں ۔
اعداد و شمار پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 کے بعد سے عیسائیوں پر حملوں کے واقعات میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں کل 147 معاملے سامنے آئے تھے جب کہ 2019 میں یہ تعداد 247 ہو گئی ہے۔ 2015 میں عیسائی طبقہ پر حملے کے 177 معاملے رپورٹ ہوئے تھے، لیکن 2016 میں یہ تعداد 208، 2017 میں 240 اور 2018 میں 292 تک پہنچ گئی۔
غور طلب ہے کہ اسی ماہ نیپال سرحد سے ملحق اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع میں ہندوتوا گروپوں نے اتوار کو چرچ میں گھس کر دعائیہ جلسہ میں ہنگامہ کیا اور پادری کو گھسیٹ کر تھانے لے گئے۔ پولس نے بھی پادری پر دفعہ 153(اے)، 295 اے، (1)505 کے تھت معاملہ درج کیا، جب کہ دوسرے پادریوں کو چرچ میں دعائیہ جلسہ کرنے سے پہلے اجازت لینے کی ہدایت دی۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 153(اے) کسی دو گروپ کے درمیان مذہبی، نسلی، جائے پیدائش کو لے کر ماحول خراب کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ 295 اے قصداً شرارت کرنے، کسی طبقہ یا ذات کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے یا مذہبی اعتماد کی بے عزتی کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ (1)505 کسی دو گروپ کے درمیان تکرار پیدا کرنے کے مقصد سے کوئی رپروٹ یا مضمون شائع کرانے کے لیے ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جب ہندوتوا شورش پسندوں نے چرچ پر حملہ کیا اور پادری کے گھر کو گھیر لیا تو پادری نے سیکورٹی کے لیے پولس کو خبر دی تھی، لیکن پولس نے الٹے پادری کے خلاف ہی کئی دفعات میں معاملہ درج کر انھیں جیل بھیج دیا۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق رکن اے سی مائیکل نے بتایا کہ ”گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی کے نزدیک جون پور میں رات دو بجے پولس اچانک ایک پادری کے گھر پہنچی اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی ہفتہ کے روز کی گئی، تاکہ اتوار کو ہونے والے چرچ کے دعائیہ جلسہ میں خلل پیدا ہو۔ اگلے دن جب لوگ چرچ میں دعا کے لیے جا رہے تھے تو ایک بھیڑ نے ان لوگوں کو گھیر کر واپس بھیج دیا۔“ انھوں نے بتایا کہ اس ضلع میں تقریباً 500 عیسائی رہتے ہیں۔ مائیکل نے موب لنچنگ کو غیر ضمانتی جرم بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ اتر پردیش میں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت آئی ہے، تب سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ 2018 میں اتر پردیش میں عیسائیوں پر حملے کے 108 معاملے سامنے آئے۔ ان سبھی حملوں کی جانکاری میپ وائلنس ڈاٹ ان نامی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ یہ ویب سائٹ عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھتی ہے۔
اے. سی. مائیکل کا کہنا ہے کہ ”پولس والے کہتے ہیں کہ ان پر اوبر سے دباو ہے۔ لیکن پولس کو دباو میں آنے کی جگہ معاملوں کی گہرائی سے جانچ کر کے کارروائی کرنی چاہیے۔ دراصل حکومت قصداً ایسی بات پھیلا رہی ہے کہ عیسائی طبقہ مذہب تبدیل کراتا ہے۔“ مائیکل نے سوال کیا کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو گزشتہ 70 سال میں عیسائیوں کی تعداد کم کیوں ہوتی؟ انھوں نے بتایا کہ ملک کی 7 ریاستوں میں مذہب تبدیلی مخالف قانون نافذ ہے، لیکن آج تک ایک بھی پادری کو اس معاملے میں سزا نہیں ہوئی ہے، کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا۔ انھوں نے کہا کہ ان ساتوں ریاستوں میں مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلع مجسٹریٹ کی اجازت لینا لازمی ہے، جو کہ آئین کے خلاف ہے۔(بشکریہ قومی آواز )