رامش فاطمہ
قصور ویڈیو اسکینڈل ختم ہونے کے قریب ہے، گواہان کے منحرف ہونے کے بعد مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات ختم کر دی گئیں، بیشتر مرکزی ملزمان کو سزا نہیں ملی، یہ خبر سننے کے بعد احساس ہوا کہ حکمرانوں کے نام لیوا سچ کہتے ہیں کہ لاہور میں بچوں کا اغوا کوئی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ آئی جی صاحب بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کوئی سیریس ایشو نہیں۔ شاید یہ سب کہنے سے ماؤں کے زخموں پہ مناسب نمک چھڑکا جانے میں کوئی کمی رہ گئی تو مزید کارنامہ یہ بتلایا جا رہا ہیکہ صرف چورانوے بچے ہیں جو بازیاب نہ ہو سکے باقی سینکڑوں بچے ہم نے بازیاب کروا لیئے، اس فخریہ کارنامے پہ پنجاب حکومت داد کی مستحق ہے بلکہ کچھ دس بارہ اشتہار چھپوائیں تو کیا خبر مزید پچاس ساٹھ بچے بازیاب کروانے میں کامیاب ہو جائیں۔
تعداد پہ جاری اس بحث سے یاد آیا کہ جن دنوں دھماکوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا ہر خبر کے بعد سوال ہوتا تھا کتنے لوگ مرے؟ آٹھ دس کا مرنا تو معمولی نوعیت کا دھماکہ تھا اور حکام تسلی دیتے تھے کہ شکر کریں زیادہ نقصان نہیں ہوا، پچاس ساٹھ لوگوں کے مرنے پہ دھماکہ شدید نوعیت کا ہوتا تھا۔ گویا انسان نہیں مر رہے، میچ کا اسکور بتایا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم اجتماعی بے حسی کا شکار ہو چلے ہیں۔ ہمارے لیئے کوئی حادثہ، کوئی سانحہ اس سے بڑھ کر نہیں رہ گیا کہ مرنے والوں کی تعداد پتہ چل سکے اور پھر اگلی خبر کا انتظار کریں۔ شاید آپ کے لئے صرف دس لوگ مرے ہوں مگر اس خبر میں چھپے دس گھر سوگ میں ڈوب جاتے ہیں اور زخمی ہونے والوں کا تو کہیں شمار ہی نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ امداد کا چیک۔ اسی طرح چورانوے بچے شاید بیس کروڑ کی آبادی میں کوئی خاص اہمیئت نہ رکھتے ہوں مگر چورانوے ماؤں کی گود سونی ہے، جانے دن میں کتنی بار ان کی آنکھیں اپنے جگر گوشوں کی آس میں دروازے کی جانب اٹھتی ہوں گی یا گلی محلے میں بھٹکتی ہوں گی۔ لیکن فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ الفاظ بولتے ہوئے شاید کسی کی زبان نہیں کانپی کیونکہ ہم انسان تو ہیں نہیں جو کسی دوسرے کا درد محسوس کر سکیں..لاش پہ سوگ تب ہی ہو گا جب ہمارے اپنے کی لاش اٹھے ورنہ لاتعلق رہیں، ہمارے بچے سلامت رہیں باقی چاہے سارے ملک کے بچے اغوا ہو جائیں تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ تعداد چورانوے ہو یا چار سو، یہ ایک المیہ ہے جو جنم لے رہا ہے اور ان کی توجہ کا مستحق ہے جن کے خیال میں یہ کوئی سنجیدہ یا بڑا مسئلہ نہیں۔
ہمارے بچے تعلیم اور صحت کے بنیادی حق سے محروم ہیں ، گھروں میں اور گھر سے باہر جنسی طور پہ ہراساں کیئے جانے کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ، بچوں کے اغوا کے واقعات بڑھ رہے ہیں مگر ہمیں اپنے ملک کے سوا سب کا درد محسوس ہوتا ہے، سب کی تکلیف نظر آتی ہے، اس سرحد کے پار ہر طرف ظلم و بربریت کی داستانیں ہیں جو ہم سنا سکتے ہیں مگر جو ہمارے گھر میں ہو رہا ہے اس جانب توجہ نہیں کرتے تو اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو اِدھر بھی۔(ملت ٹائمز)
قصور ویڈیو اسکینڈل ختم ہونے کے قریب ہے، گواہان کے منحرف ہونے کے بعد مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات ختم کر دی گئیں، بیشتر مرکزی ملزمان کو سزا نہیں ملی، یہ خبر سننے کے بعد احساس ہوا کہ حکمرانوں کے نام لیوا سچ کہتے ہیں کہ لاہور میں بچوں کا اغوا کوئی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ آئی جی صاحب بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کوئی سیریس ایشو نہیں۔ شاید یہ سب کہنے سے ماؤں کے زخموں پہ مناسب نمک چھڑکا جانے میں کوئی کمی رہ گئی تو مزید کارنامہ یہ بتلایا جا رہا ہیکہ صرف چورانوے بچے ہیں جو بازیاب نہ ہو سکے باقی سینکڑوں بچے ہم نے بازیاب کروا لیئے، اس فخریہ کارنامے پہ پنجاب حکومت داد کی مستحق ہے بلکہ کچھ دس بارہ اشتہار چھپوائیں تو کیا خبر مزید پچاس ساٹھ بچے بازیاب کروانے میں کامیاب ہو جائیں۔
تعداد پہ جاری اس بحث سے یاد آیا کہ جن دنوں دھماکوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا ہر خبر کے بعد سوال ہوتا تھا کتنے لوگ مرے؟ آٹھ دس کا مرنا تو معمولی نوعیت کا دھماکہ تھا اور حکام تسلی دیتے تھے کہ شکر کریں زیادہ نقصان نہیں ہوا، پچاس ساٹھ لوگوں کے مرنے پہ دھماکہ شدید نوعیت کا ہوتا تھا۔ گویا انسان نہیں مر رہے، میچ کا اسکور بتایا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم اجتماعی بے حسی کا شکار ہو چلے ہیں۔ ہمارے لیئے کوئی حادثہ، کوئی سانحہ اس سے بڑھ کر نہیں رہ گیا کہ مرنے والوں کی تعداد پتہ چل سکے اور پھر اگلی خبر کا انتظار کریں۔ شاید آپ کے لئے صرف دس لوگ مرے ہوں مگر اس خبر میں چھپے دس گھر سوگ میں ڈوب جاتے ہیں اور زخمی ہونے والوں کا تو کہیں شمار ہی نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ امداد کا چیک۔ اسی طرح چورانوے بچے شاید بیس کروڑ کی آبادی میں کوئی خاص اہمیئت نہ رکھتے ہوں مگر چورانوے ماؤں کی گود سونی ہے، جانے دن میں کتنی بار ان کی آنکھیں اپنے جگر گوشوں کی آس میں دروازے کی جانب اٹھتی ہوں گی یا گلی محلے میں بھٹکتی ہوں گی۔ لیکن فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ الفاظ بولتے ہوئے شاید کسی کی زبان نہیں کانپی کیونکہ ہم انسان تو ہیں نہیں جو کسی دوسرے کا درد محسوس کر سکیں..لاش پہ سوگ تب ہی ہو گا جب ہمارے اپنے کی لاش اٹھے ورنہ لاتعلق رہیں، ہمارے بچے سلامت رہیں باقی چاہے سارے ملک کے بچے اغوا ہو جائیں تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ تعداد چورانوے ہو یا چار سو، یہ ایک المیہ ہے جو جنم لے رہا ہے اور ان کی توجہ کا مستحق ہے جن کے خیال میں یہ کوئی سنجیدہ یا بڑا مسئلہ نہیں۔
ہمارے بچے تعلیم اور صحت کے بنیادی حق سے محروم ہیں ، گھروں میں اور گھر سے باہر جنسی طور پہ ہراساں کیئے جانے کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ، بچوں کے اغوا کے واقعات بڑھ رہے ہیں مگر ہمیں اپنے ملک کے سوا سب کا درد محسوس ہوتا ہے، سب کی تکلیف نظر آتی ہے، اس سرحد کے پار ہر طرف ظلم و بربریت کی داستانیں ہیں جو ہم سنا سکتے ہیں مگر جو ہمارے گھر میں ہو رہا ہے اس جانب توجہ نہیں کرتے تو اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو اِدھر بھی۔(ملت ٹائمز)