موتیہاری: (یو این آئی) بہار کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر کو بچے کی نگہداشت کے لئے چھٹی مانگنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس پر اساتذہ یونین نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
مہاتما گاندھی سنٹرل یونیورسٹی اساتذہ یونین نے اپنی ساتھی ٹیچر سواتی منوہر کو وائس چانسلر کے اشارے پر ایگزیکٹو کونسل کی سفارش پرمنمانے طریقے سے معطل کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے معطلی واپس لینے اور روکی گئی تنخواہ جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مہاتما گاندھی سنٹرل یونیورسٹی کا اساتذہ یونین کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر مرتنجے یادو نے بتایا کہ سواتی منوہر یونیورسٹی کے جیو ٹیکنالوجی اور جینوم محکمہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے چھ ماہ کی زچگی کی چھٹی کے بعد بچے کی دیکھ بھال کیلئے درخواست دی تھی کیونکہ اپنے خاندانی حالات کی وجہ سے وہ اپنے بچے کی نگہداشت کے ساتھ اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کو مناسب طریقے سے انجام دے پائیں گی۔ اس کے علاوہ ان کے شوہر دہلی میں کام کرتے ہیں اور گھر میں ایسا کوئی نہیں ہے جو موتیہاری میں ان کے ساتھ رہ کر بچے کی پرورش اور پرداخت میں ان کا ہاتھ بٹا سکے۔
یونیورسٹی میں سرکاری ضابطے کے مطابق خواتین ملازمین اور خواتین اساتذہ کے لئے کریچ تک نہیں ہے۔ ایسے میں ایک ماں کس کےبھروسے اپنے نوزائیدہ کو چھوڑ کر کلاس روم میں پڑھاستکی ہے ؟حالات تو یہ ہیں کہ یونیورسٹی میں کوئی ڈاکٹر تک نہیں ہے اور موتیہاری جیسی چھوٹی جگہ میں طبی بدحالی جگ ظاهر ہے۔ چنانچہ زچگی کی تعطیل ختم ہونے کے بعد یونیورسٹی کو اپنی سروس دینے کے قابل نہیں تھیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ سے بچے کی دیکھ بھال کے لئے بار بار تعطیل کی درخواست کرنے کے بعد بھی انہیں مناسب جواب نہیں مل پایا اور گزشتہ تقریبا 5 ماہ سے ان کی غیر موجودگی کو ایشو بنا کر ان کی تنخواہ ہی روک دی گئی ہے۔ ایسی منفی حالت میں بالآخر انہوں نے گزشتہ چند دنوں پہلے یونیورسٹی میں کو جوائن کر لیا تھا۔ مگر ان کے تئیں ذاتی بغض کی وجہ سے وائس چانسلر نے 3 دسمبر کو منعقدہ نو تشکیل شدہ ایگزیکٹو کونسل کی پہلی ہی میٹنگ میں انہیں معطل کروا دیا۔انہوں نے کہا کہ ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاو‘ کا نعرہ دینے والی حکومت کی ناک تلے ایک عورت کو ضرورت پڑنے پر بھی بچے کی دیکھ بھال کے لئے چھٹی نہ دینا انسانیت مخالف ہی کہا جائے گا۔ کام کی جگہ پر کریچ جیسی بنیادی سہولت تک مہیا نہ کرا پانا ظاہر کرتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی خاتون اساٹذہ کے تئیں کتنی بے حس ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے جاری اس معطلی کے حکم کی بابت 4 دسمبر کو یونیورسٹی کے اساتذہ یونین نے ایک ہنگامی میٹنگ کرکے متفقہ طور پ اس طرح سے عورت مخالف معطلی کی پرزور الفاظ میں مذمت کی۔ اساتذہ یونین کے نمائندوں نے اس تناظر میں وائس چانسلر سے بات چیت کی کوشش بھی کی مگر انہوں نے ملنے سے صاف انکار کر دیا جس سے ظاہر ہے کہ وہ بہار کی اس بیٹی سے اس کے ذریعہ معاش چھین لینا چاہتے ہیں۔