خبر در خبر (624)
شمس تبریز قاسمی
شہریت متنازع بل لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا سے بھی منظور ہوگیا ہے۔ لوک سبھا سے منظور ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی لیکن بی جے پی راجیہ سبھا سے بھی یہ بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ سیکولرزم کی دعویدار جے ڈی یو ، اے آئی ڈی ایم کے، بے جی ڈے اور وائی ایس آر کانگریس جیسی پارٹیوں نے اس بل کی منظوری میں نمایاں کردار ادا کیاہے ۔نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ساتھ حاصل کرنے والی شیو سینا نے بھی واک آﺅٹ کرکے بی جے پی کو نقصان پہونچانے سے گریز کیا ۔ بل کے حق میں 125 ووٹ پڑے جبکہ خلا ف میں 105 ووٹ پڑے ۔ بل کی منظور ی سے قبل اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کیلئے ووٹنگ ہوئی تھی جس میں بھی بی جے پی کو برتری حاصل رہے ۔ تجویز کے حق میں صرف نناوے ووٹ پڑے جبکہ سلکیٹ کمیٹی میں بھیجنے کے خلاف 124 ووٹ پڑے ۔
یہ بل بنیادی طور پر مسلمانوں کو ہراساں، پریشان اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری قرار دینے کیلئے لایا گیا ہے لیکن بی جے پی اپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہوپائے گی ۔ بینادی طور پر اس بل میں یہ تجویز ہے کہ پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہندو، سکھ ،عیسائی ،جین اور بڈھسٹ کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔ مسلمانوں کے علاوہ تقریبا ہندوستان میں رہنے والے سبھی مذاہب کے لوگ جو دسمبر 2014 تک آچکے ہیں انہیں شہریت دی جائے گی ۔
اس بل کے حوالے سے بعض نام نہاد دانشوران جس میں اردو کے بھی کچھ صحافی شامل ہیں وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے زیادہ خلاف نہیں ہے ،یہی بات وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی باربار کہاہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا اس بل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہندوستان کے مسلمان جیسے تھے ویسے ہی رہیں گے لیکن سوال ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو شہریت کیوں نہیں دی جائے گی ۔ ہندوستان صرف ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا بھی ہے ۔ ہندوستان کو سینچنے اور سنوارنے کا کام مسلمانوں نے ہی کیا ہے ۔ جس ہندوستان پر آج بی جے پی کی حکومت ہے اس کی تعمیر مسلم بادشاہوں کے دورمیں ہی ہوئی ہے ۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستان 500 سے زیادہ ٹکروں میں بٹے ہواتھا اور سبھی آپس میں باہم دست وگریباں رہتے تھے ۔ مسلمانوں نے آکر متحد کیا اور مغلیہ حکومت میں موجودہ بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ہندوستان تھا ۔اس لئے اس سرزمین پر جتناکسی دوسری قوم کا حق ہے اتناہی مسلمانوں کا بھی حق ہے اگر پاکستان اور کسی دوسرے ملک کے ہندﺅں اور عیسائیوں کو ہندوستان شہریت دے سکتاہے تو ان ملکوں کے مسلمان بھی یہاں شہریت حاصل کرنے کے حقدار ہیں ۔ ہندوستان کی آزادی اور یہ موجودہ بھارت مسلمانوں کی ہی دین ہے ۔مسلمانوں نے یہاں ایک ہزا ر سال تک حکومت کی ہے اگر وہ تعصب سے کام لیتے ، ہندو ازم اور دیگر مذاہب پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو یہاں اس مذہب کا نام ونشان بھی نہیں ہوتا لیکن انہوں نے رواداری سے کام لیا ۔
امت شاہ کا بار بار یہ کہنا کہ اس بل سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا ۔ وہ جیسے یہاں رہ رہے ہیں ویسے ہی رہیں گے ایک فریب اور جھوٹ پر مبنی جملہ ہے کیوں کہ اس بل کی منظوری کے بعد این آر سی نافذ کرکے مسلمانوں کے سامنے مسائل پید ا کئے جائیں گے ۔ وزیر داخلہ کا صاف اعلان ہے کہ این آرسی کا نفاذ ہر حال میں ہوگا اور یقینی طور پر ایک قابل ذکر تعداد کا اس فہرست میں نام نہیں آسکے گا ،معمولی غلطیوں کو بنیاد بناکر رجسٹر سے خارج کردیاجائے گا ۔ اس فہرست میں ہندو، مسلمان ، سکھ عیسائی سبھی شامل ہوں گے تاہم شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کی بنیاد پر انہیں ہندوستان میں شہریت مل جائے گی جبکہ مسلمان حق شہریت سے محروم قرار دے دیئے جائیں گے اس کے بعد انہیں کسی ملک میں بھی سرکار نہیں بھیج سکتی ہے ، سمندر میں بھی نہی ڈال سکتی ہے نہ ہی سبھی کا قتل کرسکتی ہے ایسے مواقع پر عموماً ڈیٹینشن کیمپوں میں رکھا جاتاہے ۔ شمال مشرق کی کچھ ریاستوں میں کیمپ بنائے بھی گئے ہیں ۔
بی جے پی کا یہ قانون زیادہ دنوں تک برقرار نہیں پائے گاجس طرح جی ایس ٹی اور دیگر قوانین میں بی جے پی کو ترمیم کرنی پڑی ہے اس طرح میں بھی کئی ساری ترمیم ہوگی۔ ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ میں بھی یہ بل چیلنج ہونے کے بعد ٹک نہیں پائے گا ۔ آسام ،میزروم سمیت شمال مشرق کی سبھی ریاستیں اس بل کے خلاف ہیں کیوں کہ ان کے شناخت خطرے میں پڑ گئی ہے ۔
مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کی تاریخ میں اس طرح کے دسیوں قانون بن چکے ہیں ۔ ٹاڈا پوٹا جیسے کالے قوانین مسلمانوں کے خلاف ہی بنائے گئے تھے اس فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے ۔مسلمانوں نے کل بھی عزم ،حوصلہ اور ہمت سے کام لیاتھا ۔ آج بھی لیں گے اور انشاءاللہ ہندوستان میں کوئی بھی طاقت ہمارا نام و نشان مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔ اسلام کل بھی غالب تھا ،آج بھی غالب ہے اور ہمیشہ غالب رہے گا ۔ نڈر رہیے ، مضبوط رہیئے ، بیباک بنیے ،اپنے حق کی لڑائی لڑنے کا جذبہ پیدا کیجئے ۔
stqasmi@gmail.com