پورے ملک میں اور بالخصوص آسام سمیت نارتھ ایسٹ کی تمام ریاستوں میں اس شہریت ترمیمی بل کے خلاف دھرنا و احتجاج ہور ہاہے مگر مرکزی حکومت عوام کی آواز اور دردسننے کی بجائے ان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں
نئی ہلی: (ملت ٹائمز)
آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر و ررکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے آج اعلان کیا ہے کہ وہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ لیگل سیل کی ٹیم مقدمہ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہے اور جلد ہی اس غیر دستوری اورغیر آئینی قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تاکہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری شناخت اور ڈھانچہ کا تحفظ ہو سکے۔ مولانا اجمل جو جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر بھی ہیں نے کہا کہ شہریت ترمیمی بل جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے کے بعد اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد ہندوستان کے آئین کا حصہ بن چکا ہے یہ ایک متعصابانہ اور ہندوستان کے د ستور کی روح سے متصادم ہے اسلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔مولانا نے کہا کہ ہندوستان میں شہریت کے قانون میں بہت سی مرتبہ ترمیم ہوئی ہے مگر کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی گئی ہے مگر شاید یہ پہلا موقع ہے جب کوئی قانون بنا ہے جس میں شہریت مذہب کی بنیاد پر دینے کی بات کی گئی ہے جو کہ ہندوستان کے ُاس دستورکے خلاف ہے جس کی بنیاد سیکولر اور جمہوری اصولوں پر ہے۔ مولانا نے کہا کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے وہ ‘ پھوٹ ڈالو، حکومت کرو’ کی پالیسی اپنا کر ہندوستان کے لوگوں کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش میں لگی ہے، اور اس طر ح کا قانون ہندوستان کے لوگوں میں مزید مذہبی منافرت کو ہوا دینے والا ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا بھیم راؤ امبیڈکر صاحب کی نگرانی میں ہندوستان کا جو دستور و آئین بنا تھاوہ ملک کے لوگوں کو جوڑنے والا ہے، ان کو مساوات اور برابری کے ساتھ حقوق دینے والا ہے،اسلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے وقت ُان اصولوں کو پیشِ نظر رکھے مگر افسوس کہ موجودہ حکومت اپنی تعداد کی بنیاد پر منمانے طریقہ سے قانون سازی کر رہی ہے جس سے اس ملک کے دستور و آئین کی پامالی ہو رہی ہے۔ انہی میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون بھی ہے جس میں تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھکر ایک متعصبانہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی مخالفت کی ہے، سڑکوں پر بھی کر رہے ہیں اور اب عدالت عظمی میں اس سیاہ قانون کو چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ اپوزیشن کی اکثر پارٹیوں نے سرکار کے اس رویہ کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی ہے، ملک بھر میں سڑکوں پر بھی مظاہرے کئے ہیں اور کر رہے ہیں نیز بہت سے لوگ اس کو عدالت میں بھی چیلنج کرنے جارہے ہیں، جس سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور امید جاگتی ہے کہ انشاء اللہ حکومت کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں اور بالخصوص آسام سمیت نارتھ ایسٹ کی تمام ریاستوں میں اس شہریت ترمیمی بل کے خلاف دھرنا و احتجاج ہور ہاہے مگر مرکزی حکومت عوام کی آواز اور دردسننے کی بجائے ان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں، ان پر لاٹھیچارج کر رہی ہے، گولی چلا رہی ہے، ان کے احتجاج کو ٹی وی پر نشر نہ کرنے کا حکم جاری کر رہی ہے اور انٹرنیٹ وغیر کی سروس بن کر رہی ہے۔ان سب سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ بی جے پی سرکار گھمنڈ میں چور ہے اوراسے لوگوں کی پریشانی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے آسام اکورڈ بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے گا جو آسام کے لوگوں کی تحریک اور قربانی کے بعد ۵۸۹۱ میں عمل میں آیا تھا،اسی طرح سپریم کورٹ کی نگرانی میں آسام میں بننے والے این آر سی کے لئے کی گئی محنت، اس کے لئے خرچ کئے گئے پیسہ،، لوگوں کو اس کے لئے ہوئی مشقت و پریشانی اوراس کے لئے چلنے والی تحریک سب کچھ بے مطلب ہو جائے گا۔ آسام جو خود پسمانگی کا شکار ہے وہاں مزید غیر ملک سے لاکر بسائی جانے والی آبادی کا بوجھ پڑے گا۔ مولانا نے کہا کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس قانون کا تعلق تو صرف پاسکتان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلموں سے ہے اسلئے ہندوستان کے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مگر حقیقت یہ اس قانون کو این آر سی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف وزیر داخلہ بار بار پورے ملک میں این آر سی بنانے کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ قانون بنایا ہے۔ اب اگر این آر سی میں غیر مسلموں کا نام کسی وجہ سے نہیں آئے گا تو وہ اس قانون کی وجہ سے شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ جن مسلمانوں کا نام کسی وجہ سے نہیں آپائے گا وہ شہریت کے لئے تڑپتے رہ جائیں گے۔ اسلئے ہم ہر ممکن لڑائی لڑیں گے اور آئین میں دئیے گئے حقوق کا استعمال کرکے اس قانون کو کالعدم بنانے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ ۰۳، نومبرکو دہلی میں وزیر اخلہ کی طرف سے بلائی گئی میٹنگ میں بھی اے آئی یو ڈی ایف نے اس غیر آئینی بل کی مخالفت درج کروائی تھی۔اس کے بعد آسام میں مختلف اضلاع میں دھرنا کے بعد ۴، دسمبر کو آسام اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا گیا،اس کے بعد پارٹی کے صدر مولانا بدر الدین اجمل کی قیادت میں دہلی کے جنتر منتر پر دھرنا دیا گیا جس میں عوام کے علاوہ جے این یو، دہلی یونیورسیٹی، جامعہ ملی اسلمایہ سمیت مختلف یونیورسیٹی کے طلباء نے شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ مولانا بدرالدین اجمل نے اپوزیشن کے تمام لیڈروں کو خط لکھکر اور بہت سے لیڈروں سے فون پر بھی بات کر کے اس بل کے مضرات کے پیشِ نظر اس کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی اپیل کی تھی،اور جب یہ سیاہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو خود،مولانا نے اس بل کی پُرزور مخالفت کی۔






