احتشام الحق آفاقی
میرے خوابوں کی آماجگاہ ،دل کی بے قرار دھڑکن ،مادر وطن ہندستان، جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ کہی جاتی ہے ، جو تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے دنیا میں ایک شناخت قائم کی ہوئی ہے ، میرے مادر وطن کشمیر سے کنیا کماری تک اور پنجاب سے لیکر آسام تک لاکھوں مربع میل کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ نشان جنت اسی ملک میں واقع ہے ، گنگا جمنی تہذیب و ثقافت بھی یہیں ہے ، تمام مذاہب کے گتھم گتھا بھی یہیں ہے ، یہاں ابتدا میں لوگ پتّوں سے بدن ڈھانکتے ، پہاڑ کے غاروں یا درختوں کے چھاؤں میں زندگی بسر کرتے اور پتھر کے ہتھیاروں سے جانوروں کا شکار کرتے تھے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چارہزار برس پہلے یعنی اب سے ساڑھے چار ہزار قبل آریہ قوم کے لوگ یہاں آئے اور پورے ملک میں لڑجھگڑ کر چھا گئے ، انھوں نے یہاں پر کاشتکاری کے کام کو فروغ دیا ، اس کے بعد لوگوں نے دوسرے کاروبار بھی شروع کئے ، ہندو دھرم کی مشہور کتاب وید اسی زمانہ میں لکھی گئی ، جو آج تک موجود ہے ، ہندستان اور عرب کے بیچ صرف ایک سمندر حائل ہے ، عرب کے باشندے جہازوں پر سوار ہو کر تجارت کی غرض سے یہاں آتے تھے ، جب اسلام کے بعد عربوں کی طاقت بڑھی عرب اور عراق میں ان کی سلطنت کی چہار دیواری مضبوط ہوگئی تو انھوں نے دنیا سے ڈاکہ زنی کے خاتمہ کا بیڑا اٹھایا ، سندھ اورگجرات کے ڈاکو کبھی کبھی ان کے جہاز کو لوٹ لیا کرتے تھے ۔ ۶۳۶ ء میں عرب مسلمان کی تھوڑی تھوڑی ٹکریاں بمبئی اور کراچی کے آس پاس آکر آباد ہوئی ،لیکن ستّر اسّی برس کی مدت تک ان کی حکومت قائم نہ ہوسکی ۔غالباََ ۷۰۰ ء کے آس پاس محمد بن قاسم ہندستان آئے ، انھوں نے چند ہی دنوں میں سند ھ سے ملتان تک کا سارا علاقہ فتح کرلیا ، محمد بن قاسم نے مقید ہوکر وفات پائی ،سندھ کی اسلامی فتوحات کے دو برس بعد درۂ خیبر کی راہ سے مسلمانوں کا دوسرا گروہ ہندستان آیا ،۱۰۰۱ ء کے بعد غزنی کی حکومت شروع ہوئی، ۱۲۰۶ ء میں سلطان قطب الدین کی قیادت میں سارا شمالی ہندستان ایک جھنڈے کے نیچے آگیا ، سلطان قطب الدین کی وفات کے بعد ہندستانی قیادت کو ان کے عزیز غلام سلطان شمس الدین التمش نے تخت کو سنبھالا جو اس وقت بدایوں کے حاکم تھا۔ التمش کے بعد ان کا بڑا لڑکا رکن الدین بادشاہ بنایا گیا ، لیکن وہ اپنی کاہلی کی وجہ سے اس لائق نہیں تھا کہ وہ حکومت کو چلاسکے، اسلئے ان کو تخت سے اتار دیا گیا ، اس کی جگہ اس کی بہن رضیہ سلطانہ تخت پر بیٹھائی گئی ، رضیہ سلطانہ بڑی منتظم اور نہایت سمجھدار عورت تھی ،لیکن امیروں کو ایک عورت کی حکومت راس نہ آئی ، نتیجہ یہ نکلا کہ تین ہی برس میں تخت سے اتار کر قید کردی گئی ، ۱۲۳۹ ء کی ایک لڑائی میں مار ی گئی ۔ اب مغلوں کا ہندستان میں داخل ہونے کا دور شروع ہو چکا تھا ،رضیہ کے بعد اس کے دوسرے بھائی بہرام شاہ کی بادشاہی کا اعلان ہوا ، لیکن یہ بھی کوئی خاطر خواہ کام نہ کرسکا ، ۱۵۲۶ ء کی پانی پت کے میدان میں سلطان ابراہیم کی فوجوں کو شکست دے کر بابر کی فوج دہلی میں داخل ہوئی ،۱۵۳۱ ء میں بادشاہ بابر کا انتقال ہوگیا اس کے بعد اس کالڑکا ہمایوں تخت نشین ہوا، آخر کا ایک دن سلطان شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر بنگال سے پنجاب تک اپنا قبضہ جما لیا ، یہ اس آن بان کا آدمی تھا کہ معلوم نہیں کیا کچھ کر گزرتا ، لیکن ان کی زندگی نے ان کا ساتھ نہیں دیا ، شیر شاہ سوری انتظام کا اتنا پختہ آدمی تھا کہ چند ہی برسوں میں اس نے سارے ملک کو آباد و گلزار کر دیا اور بیسوں سڑکیں ، سرائیں ، مسجدیں اور کنویں بن گئے ،ان کی کسانوں اور غریبوں پر خاص توجہ تھی ۔ شیر شاہ کے بعد ان کا بیٹابادشاہ ہوا اور نو سال تک اپنے والد کا نام زندہ کئے رہا اس کے بعد عادل شاہ نے تخت کو حاصل کیا ، وہ اتنا نکما نکلا کہ باپ دادا کی برسوں کی محنت کو خاک میں ملا دیا۔
ادھر ہمایوں کے بعد اس کا لڑکا اکبر تخت کو سنبھا لا ، جن کے اندربوڑھوں کی عقل اور نوجوانوں کی طاقت آن بان سے موجود تھی ، اکبر پچاس برس تک کی حکومت کے بعد اس دار فانی کو آخر کار الوداع کہہ گیا ، اکبر کے بعد اس کا لڑکا سلیم جہانگیر کے نام سے تخت پر بیٹھا ،جہانگیر کے انتقال کے بعد خرم شاہجہاں کے نام سے تخت پر بیٹھا ، اس کے زمانہ میں ہندستان کی کافی ترقی ہوئی ،ملک کی آمدنی میں صرف مالگزاری ساڑھے سینتیس کروڑ تک پہنچ گئی ،قسم قسم کی عمارتیں تیار ہوئیں ، آگرہ کا تاج محل ، دہلی کا لال قلعہ اور جامع مسجدآج بھی اس کی نفاست اور خوش ذوقی کی گواہ ہیں ۔ اورنگ زیب کے بعد شہزادوں کے آپس کے جھگڑوں پھر سکھوں اور راجپوتوں کی لڑائی سے ملک میں بہت زیادہ انتشار پھیل گیا تھا ، معظم شاہ کی کوشش کچھ کامیاب ہوئی ، لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکی کہ مغلوں کے آن و بان اور شان کو باقی رکھ سکے ۔
زوالِ ہند،در اصل زوالِ مغل ہے ، مغل جس دن سے ہندستان میں زوال پزیر ہونے لگے اسی دن سے انگریز اس ملک میں دخل اندازی کے لئے کمر بستہ ہونے لگے ۔ ہندستان کی دولت مالداری کے قصے ساری دنیا میں مشہور تھے ،یورپ کے قوموں کو بھی نفع اٹھانے کی فکر تھی ، اسی دھن میں پرت گیز جہازی واسکو ڈی گاما ایک رب مسلمان کی مدد سے ہندستا ن کالی کٹ پہنچا ۔ انگریز سودا گر سولہویں صدی عیسوی کے ختم ہوتے ہوتے ہندستان پہنچ چکے تھے ، ۱۶۰۰ ء میں یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی بھی قائم ہو چکی تھی ، اس کمپنی نے نہ صرف شاہی حکومتوں کا خاتمہ کیا ، بلکہ دین حق اور مسلمانوں کو مٹانے کے سلسلے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ انھوں نے اسلامی اور مسلمانی حکومت کو ختم کرنے کے لئے نہتے مسلمانوں کا نوابوں اور علمائے کرام کا خون بہانے کا وہ کھیل کھیلا جس کو تاریخ فراموش نہیں کرسکتی ۔سکھوں کو مسلمانوں لڑایا اور مرہٹوں کو اسی کٹوری میں ہاتھ دھونے کے لئے بھیج دیا ، تاکہ مسلمانوں کا پوری طرح سے صفایا ہوجائے ۔
مؤرخین نے لکھا ہے : انگریزوں کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں تھی بلکہ اس کی دشمنی تو اسلام سے تھی ، اسی لئے تو اس نے ، ایک ساتھ اسّی اسّی علماء کو بوریوں میں بھر کر گولیوں کا نشانہ بنایا، تاکہ نہ اسلام رہے اور نہ حق کا پیغام دنیا میں عام ہو ، ۱۹۴۰ ء میں رام گڑھ میں مولانا ابو الکلام کی صدرات میں کانگریس کا سالانہ جلسہ ہوا، اس جلسہ میں انگریزوں کے طرز عمل کے خلاف تجویز منظورکی گئی اور یہ اعلان کیا گیا کہ ہندستان مکمل آزادی چاہتا ہے ، اس وقت کا عالم یہ تھا کہ کسی مجمع میں کوئی ایک آدمی کھڑا ہو کرجنگ کے خلاف تقریر کرتا ، یا نعرہ لگاتا تو گرفتار ہو جاتا تھا ،اس طرح سے انھوں نے ہزاروں آدمیوں کوپکڑ کر جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ، لیکن اس حالت میں بھی قربان جائے ان مجاہدین آزادی پر جنھوں نے اپنی جانوں کو ملک کی آزادی کے لئے پیش کردیا لیکن کبھی اپنے مشن سے اور مسلمانوں کے تحفظ کے خاطر دین اسلام کی بقاء کے لئے ان کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے ، اسلئے اللہ تعالی نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ۔
الغرض ۱۵/اگست ۱۹۴۷ ء کو ہندستان آزاد ہوا اور ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ ء کو ایک مکمل آزاد جمہوریت کی شکل اختیار کی ،ڈاکٹرراجندر پرشاد اس کے پہلے صدر اور پنڈت نہرو پہلے وزیر اعظم اور مولانا ابو الکلام آزادؒ پہلے وزیر تعلیم منتخب ہوئے ۔ اسلئے آج ہم آن بان اور شان کے ساتھ ستّرواں جشن آزادی منارہے ہیں ۔ (ملت ٹائمز)