خبر در خبر (625)
شمس تبریز قاسمی
متنازع شہریت ایکٹ اور این آرسی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور حکومت پر اثرانداز ہونا بھی شروع ہوگیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں جب تک سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہونچتا ہے ، بسوں کو نذر آتش نہیں کیا جاتا ہے ، ٹرینوں کو روکا نہیں جاتا ہے اس وقت تک سرکار کی نیند نہیں ٹوٹٹی ہے۔ اس مرتبہ بھی یہی ہواہے۔ مودی حکومت نے اپنے چھ سال کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا۔ لو جہاد ، گھر واپسی ، ماب لنچنگ اور مذہب اسلام کے خلاف منفی پیروپیگنڈہ جیسے ایشوز کے نام پر مسلمانوں کو پریشان کیا۔ سرکار نے شریعت مخالف تین طلاق کا قانون نافذ کردیا ، کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کشمیر کو قید خانہ میں تبدیل کردیا ، بابری مسجد کے فیصلہ کے سلسلے میں مسلمانوں کو خوفزدہ کیا ۔ ان تمام اقدامات پر مسلمانوں نے خاموشی کا مظاہرہ کیا ، پرامن اپیل کی ، احتجاج کیا، لیکن سرکار نے کوئی توجہ نہیں دی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ مسلمان خوف زدہ ہیں۔ان میں احتجاج کرنے اور اپنے حق کیلئے لڑنے کا جذبہ نہیں رہ گیا ہے ۔ ان کے پاس ہمت حوصلہ اور شجاعت نہیں ہے لیکن اب منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے کیوں کہ اس دوران سرکار نے بار بار کہا کہ ہم آسام کی طرح پورے ملک میں این آرسی نافذ کریں گے اور تمام دخل اندازوں کو ملک بدر کردیں گے صرف بڈھسٹ ، جین، ہندو ، سکھ ، عیسائی ، پارسی کو قبول کریں گے ۔پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بی جے پی نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کرالیا جس کے مطابق پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے مسلمانوں کے علاوہ سبھی مذاہب کے مہاجرین کو ہندوستان میں شہریت دی جائے گی۔ اب یہ قانون بن چکاہے، تاہم نوٹیفکیشن ابھی باقی ہے۔ اس ایکٹ نے مسلمانوں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور جب تک یہ قانون باقی رہے گا مسلمانوں کی شہریت پر خطرے کی تلوار منڈلاتی رہے گی کیوں کہ جب پور ے ملک میں این آرسی ہوگی تو آسام کی طرح یہاں بھی ہندو مسلمان سبھی کا نام خارج ہوگا، لیکن مسلمانوں کے علاوہ کو سی اے اے کی بنیاد پر شہریت مل جائے گی اور مسلمان حق شہریت حاصل نہیں کرپائیں گے۔
بی جے پی کے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کیلئے مسلمان عزم مصمم کرچکے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر یونیورسٹیز میں یہ تحریک شرو ع ہوئی ۔ 15 دسمبر کو وزرات داخلہ کے اشارے پر اس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش ہے ، طلبہ پر فائرنگ کی گئی ،لائبریر ی اور مسجد میں داخل ہوکر پولس نے بربریت کا مظاہر کیا لیکن یہ چنگار ی بجھنے کے بجائے شعلہ میں تبدیل ہوچکی ہے ، اسٹوڈینٹ کی یہ تحریک پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل چکی ہے ۔ ہندو ،سکھ ، عیسائی ، برہمن ، دلت سبھی اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اسے ہندوستان کے آئین اور دستور کی لڑائی قرار دے رہے ہیں اور انصاف پسند شہری ہندوستان سمیت دنیا بھڑ میں سڑکوں پر اتر چکے ہیں ۔ پچھلے چنددنوں میں دہلی ، ممبئی ، حیدر آباد ، بنگلور ، کالی کٹ ، چننئی ، بھوپال ، پٹنہ ، کولکاتا جیسے بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے شہروں ، دیہاتوں اور قصبوں میں بھی احتجاج شروع ہوگیاہے ۔ احتجاج کے دوران بسوں کو آگ بھی لگایا گیا ہے ، پولس وین اور میڈیا کی وین کو نذر آتش کردیا ہے ،کہیں پولس نے عوام پر قہر ڈھایا ہے تو کہیں ردعمل میں پولس اہلکار پر بھی عوام نے پتھر برسایاہے ۔ پولس فائرنگ میں تقریباً 14 لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے جن میں چھ کا تعلق اتر پردیش سے ہے ، پانچ موت آسام میں ہوئی ، بنگلور میں دو موت ہوئی اور بھی دیگر مقامات پر موت کی اطلاع ہے ۔ سبھی موت مجموعی طور پر پولس فائرنگ میں ہوئی ہے ۔ کچھ ٹی وی چینل ہمیشہ کی طرف یکطرفہ رپوٹنگ کررہے ہیں کہ عوام پولس پر حملہ کررہی ہے جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے ، عوام جو کچھ کرتی ہے وہ ردعمل میں کرتی ہے۔ جب پولس پرامن احتجاج کرنے والوں پر آنسو گیس کا استعمال کرتی ہے ،ان کے احتجاج پر پابندی لگاتی ہے تب عوام ردعمل میں سرکاری املاک کو نقصان پہونچاتے ہیں ۔ متعدد ویڈیوز میں دیکھا جارہا ہے کہ پولس پرامن مظاہرین پر پتھر چلارہی ہے ، پانی چھوڑ رہی ہے ۔ کچھ ویڈیو ایسی بھی سامنے آئی ہے جس میں مظاہرین پولس کو مارہے ہیں ۔ تشدد غلط ہے خواہ پولس کی طرف سے ہو یا مظاہرین کی طرف سے لیکن یہ جاننا اور بتانا ضروری ہے کہ تشدد کی ابتداء کیسے ہوتی ہے ۔ یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں تشدد کے واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ پولس کا مظاہرین پر حملہ اور طاقت کی بنیاد پر احتجاج کو کچلنا ہے ۔
سی اے اے اور این آرسی کے خلاف ہونے والے ملک گیر احتجاج کا سرکار پر اثر شر وع ہوچکا ہے اور اس حوالے سے چار خبر سب سے اہم ہے ۔ پہلی خبر ٹائمز آف انڈیا نے شائع کی ہے کہ وزرات داخلہ نے مظاہرین سے سی اے اے میں ترمیم کیلئے مشورہ طلب کیا ہے ۔ رائے مانگی ہے ۔ دوسری خبر دی کوئنٹ نے شائع کی ہے کہ جس کے مطابق بی جے پی نے اپنا ایک ٹوئٹ ڈیلیٹ کردیا ہے جس میں کہا تھا کہ ”ہم پورے ملک میں این آرسی نافذکریں گے اور ہر ایک گھسپیٹھیا کو نکال دیں گے سوائے بڈھسٹ ہندو اور سکھ کے “۔ تیسری خبر یہ ہے کہ سرکار نے مذہبی رہنما سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ سی اے اے کا ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ، این آر سی کا ابھی اعلان نہیں ہوا ہے اس لئے گمراہی میں نہ آئیں اور احتجاج بند کردیں ۔ چوتھا کام بی جے پی نے یہ شروع کردیاہے کہ اب وہ سمجھانے کی کوشش کررہی ہے کہ سی اے اے اور این آر سی میں فرق ہے ۔ ایک دوسرے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ این آرسی کا ابھی اعلان نہیں ہوا ہے ۔ جب بھی ہوگا تو کسی کی شہریت ختم نہیں ہوگی اور جو نارمل ڈوکومینٹ ہیں جیسے آدھار کارڈ ، شناختی کارڈ ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ بس اسے ہی جمع کرنا ہوگا ۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوگا اس کی بھی شہریت سلب نہیں کی جائے گی ۔ اسے سمجھانے کیلئے بی جے پی نے 19دسمبر کو اردو اور ہندی کے اخبارات میں اشتہار بھی شائع کرایا ہے اور بی جے پی کے قد آور رہنما میڈیا کا سہارا لیکر یہ سب مسلسل بول رہے ہیں ۔
یہ اشارہ ہے کہ عوامی طاقت کو سرکار نظر انداز نہیں کرسکتی ہے اور اگر اسی طرح احتجاج جاری رہا تو یہ سرکار ہر حال میں جھکے گی اور شہریت ترمیمی ایکٹ اسے واپس لینا ہوگا لیکن اس کیلئے شرط یہی ہے کہ یہ احتجاج اسی طرح مسلسل جاری رہنا چاہیئے کیوں کہ انقلاب بغیر قربانی اور جہد مسلسل کے نہیں آتا ہے اور الحمد للہ مسلمانوں میں یہ جذبہ بیدار ہوچکا ہے ۔