احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کے لئے یو پی میں جو رویہ اختیار کیا گیا، ایسا وحشیانہ سلوک آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو
ڈاکٹر یامین انصاری
احتجاج اور مظاہروں کے سلسلہ میں سپریم کورٹ نے گزشتہ برس ایک فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے اپنے اس فیصلے میں پرامن احتجاج کو ایک آئینی حق قرار دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی، پرامن احتجاجی مظاہروں کے لئے لوگوں کو جمع کرنا ایک جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے شہریوں کو یہ حق ہے کہ حکومت کے کسی فیصلے یا اقدام کے خلاف آواز اٹھائیں، بلکہ حکومت کے ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کا انہیں پورا حق ہے، جو سماجی یا قومی اہمیت رکھتا ہے۔ لہذا حکومت کو اس حق کا احترام کرنا چاہئے، بلکہ وہ اس حق کا استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کو اس کے وسیع معنی میں نافذ کرے، نہ کہ معقول پابندیوں کے نام پر ایسے حقوق کو کچلنے کے لئےاپنے سرکاری اور آئینی اختیارات کا استعمال کرے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرامن احتجاج، اظہار رائے کی آزادی اور ایک جگہ جمع ہونے کے حق کا لازمی حصہ ہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اس حق کو مؤثر طریقے سے نافذ کرے۔ لیکن حالیہ تجربے بتاتے ہیں کہ مسند اقتدار پر بیٹھے لوگ اور کچھ ادارے ایسے حقوق کو کمزور اور بے اثر بنانے کے لئے اکثر پولیس کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔
در اصل شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج اور مظاہروںکو کچلنے کے لئے جس طرح کے اقدامات کئے گئے ہیں، اس سے بہت سارے سوالات نے جنم لے لیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں عوام کو حاصل اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا آغازجامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہونے والے احتجاج اور اس کو دبانے کے لئے پولیس کے بیجا طاقت کے استعمال اور وحشیانہ سلوک سے ہوا ہے۔ یہ سلسلہ بی جے پی کے اقتدار والی راستوں یا مرکز کے زیر انتظام پولیس والی ریاستوں سے ہوتا ہوا پورے آب و تاب کے ساتھ اتر پردیش پہنچ گیا ہے۔یو پی میں آدتیہ ناتھ حکومت نے تو ظلم و بربریت کی ایک نئی خونچکاںداستان لکھ دی ہے۔ احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کے لئے ایسا وحشیانہ سلوک آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔حکومت کی ڈفلی بجانے والے نیوز چینلوں سے تو امید ہی کیا کی جائے، لیکن سوشل میڈیا کے ذریعہ یو پی سےجس طرح کی تصاویر، ویڈیو اور آڈیوز سامنے آر ہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کی ظالمانہ کارروائیاں نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لئے نہیں، بلکہ ایک خاص نظریہ کے تحت کی جا رہی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مظاہرے تو پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔مختلف ریاستوں کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین جمع ہو رہے ہیں اور کہیں سے کوئی معمولی تشدد کی بھی خبر نہیں ہے۔ وہیںیو پی میں تصویر اس کے بالکل بر عکس ہے۔ یہاں سیکڑوں اور ہزاروں مظاہرین کے جمع ہونے پر بھی اس پیمانے پر تشدد کیوں ہوا اور پھر اس کو قابو کرنے کے لئے پولیس نے جو رویہ اختیار کیا ، وہ حکومت اور وزیر اعلی کی منشا کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسےآ دتیہ ناتھ نے اسرائیل کو اپنا نمونہ عمل بنا لیا ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی ریاست کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف جب فلسطینی مزاحمت کار سڑکوں پر نکلتے ہیں اور صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو صہیونی افواج ایسے ہی بربیت کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔ اپنی زمین اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے والے فلسطینی مزاحمت کاروں کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان، ان کے گھروں میں داخل ہو کر وحشیانہ سلوک، املاک کو تباہ و برباد کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کو سلب کرنا اسرائیلی افواج کا روزانہ کا معمول ہے۔ یو پی میں جس طرح کے واقعات پیش آ ئےہیں، کیا یہ ہمیں اسرائیل کی بربریت کی یاد نہیں دلا رہے ہیں؟ ہم مجبور ہیں آدتیہ ناتھ کے ان بیانات کو یاد کرنے کے لئے ، جس میں وہ مسلمانوں کو کھلے عام ’بدلہ‘ لینے اور دیکھ لینے کی بات کرتے تھے۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آج جب ان کے پاس اقتدار کی طاقت ہے تو وہ اسی نظریہ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ لکھنؤ میں تشدد کے بعد بھی انھوں نے ’بدلہ ‘ لفظ کا استعمال کیا۔مانا کہ تشدد اور توڑ پھوڑ کی ایک مہذب سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے اورنظم و نسق برقرار رکھنا عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔ لیکن کیا یو پی پولیس کے پاس فائرنگ، لاٹھی چارج، گھروں میں گھس کر خواتین کو زدو کوب کرنےاور املاک کو نقصان پہچانےکے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ جو ویڈیوز اب سامنے آ رہے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سب سے پہلے طاقت کا ہی استعمال کیا، جو کہ سب سے بعد میں کرنا چاہئے تھا۔
قومی شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ۲۰؍ دسمبر کو یو پی میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔کئی مقامات پر توڑ پھوڑ ہوئی، آتش زنی، سرکاری املاک کونقصان ہوا۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ درجن افراد جاں بحق ہو گئے۔ تقریباً سبھی کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔ یو پی پولیس کے سربراہ نے فوراً بتادیا کہ پولیس نے ایک بھی گولی نہیں چلائی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب کئی شہروں سے ویڈیوز آئے ہیں، جن میں یو پی پولیس کے جوان براہ راست فائرنگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کئی مظاہرین کی اموات پولیس کی گولی سے ہونے کی بات بھی تسلیم کی ہے۔ تو اب ڈی جی پی صاحب کے پہلے والے بیان کو کیا نام دیا جائے؟ بہر حال مظاہروں اور تشدد کے بعدیوپی حکومت نے بڑے پیمانے پر مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔درجنوں ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اب تک ساڑھے پانچ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیاہے۔ پوری ریاست میں املاک کو ضبط کیا جارہاہے اور دکانوں کی سیلنگ کی جارہی ہے ۔مظفر نگر میں ۸۰؍ دکانیں سیل کر دی گئیں ۔ جبکہ مظاہروں سے متعلق کئی ایسے ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں، جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس خود ہی توڑ پھوڑ اور تخریب کاری میں ملوث ہے۔یوپی کی حکومت کسی تصدیق یا قابل بھروسہ جانچ کے بجائے لوگوں کے گھروں میں نوٹس بھیج رہی ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہےکہ یوپی حکومت نے جس انداز سے کارروائی کی ہے، وہ سپریم کورٹ کے رہنما اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور اس لیے اس کو عدالت میںچیلنج کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ احتجاج کے دوران جن لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہو، ان کی شناخت کرنے کے بعد ان کی املاک کو سیل کیا جا سکتا ہے ، ضبط کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب جرم ثابت ہو جائے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پہلے ہی حکومت دکانیں سیل کر دے اور جائیداد ضبط کر لے، جیسا کہ یوپی حکومت نے کیا ہے۔ کیوں کہ جب سزا ہو جائے اس کے بعد ہی ملزمین کی جائیداد کو ضبط کیا جا سکتا ہے ،وہ بھی ایک نوٹس کے ساتھ ۔اب لوگ یاد دلا رہے ہیں کہ آدتیہ ناتھ پر وزیر اعلی بننے سے پہلے خود فساد پھیلانے جیسے سنگین مقدمات درج تھے۔ ۲۰۰۷ء کے گورکھپور فساد میں بھی وہ ملزم تھے۔اس لئے سوال پوچھا جا رہاہے کہ ۲۰۰۷ء میں جو کچھ ہوا اور جو سرکاری املاک کا نقصان ہوا ، اس کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟ کیا پہلے وہ خود اس کی بھرپائی کریں گے ؟ لیکن وہ نفرت کی جو کھیتی کرکے یہاں تک پہنچے ہیں، اس لئے ان سے انصاف کی امید بہت کم ہے۔ وہ اس لئے کیوں کہ ۲۰؍ دسمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد ہونے والے مظاہروں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ایسےمیں اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ یوگی حکومت نے ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کو نشانہ بنانے کیلئے پولیس کو کھلی چھوٹ دےدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش میں آئین وقانون کے راج کے بجائے ہر جگہ پولیس کا راج نظر آ رہا ہے۔ یہ بالکل بھی ناقابل قبول ہے۔کوئی بھی ملک جو آئین وقانون پر چلتا ہو،اس میں اس طرح کی حرکتوں کی اجازت نہیں دیکھی جاسکتی ۔اتر پردیش بھی جمہوری ہندوستان کی ایک بڑی ریاست کا حصہ ہے نہ کہ پولیس اسٹیٹ۔پولیس کی دہشت اور خوف کا استعمال عام شہریوں کیلئے نہیں، بلکہ جرائم پیشہ افراد کیلئے ہونا چاہئے۔ یوپی کی جو پولیس جرائم پیشہ افراد کو خائف نہیں کرسکی ،اب وہی پولیس عام شہریوں کو خوفرزدہ کرکے انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔