علی گڑھ(آئی این ایس انڈیا)علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے طلبہ کے نام جاری ایک مکتوب میں کہا ہے کہ وہ کیمپس میں تعطیلات کے بعد ان کی واپسی کے منتظر ہیں اور طلبہ کے مفادکے امور پر ان سے گفت و شنید کے لیے تیار ہیں۔ وائس چانسلر نے طلبہ سے اپیل کی ہے کہ وہ طویل مدتی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کو پرامن طریقہ سے چلانے میں ان کی مدد کریں اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتوں پر یقین نہ کریں جو چند ایسے لوگ پھیلارہے ہیں جنھیں گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعات کے حقائق کا صحیح علم نہیں ہے۔ واضح ہوکہ وائس چانسلرپرسنگین الزام ہے کہ انھوں نے پولیس کوکیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں طلبہ تشددکے شکارہوئے۔اس معاملے پران کی طرف سے کافی وضاحت نہیں آسکی ہے،طلبہ یونین نے ان کے استعفے کامطالبہ کیاہے۔ویسے طارق منصورمشکوک رہے ہیں،حکومت اورسنگھ کی پراسرارمیٹنگوں میں بھی شرکت کی خبریں آئی ہیں۔جن کی وجہ سے ان پرسوال اٹھنافطری ہے۔ہوسکتاہے کہ کرسی خطرے میں دیکھ کریہ لالی پاپ دیاجارہاہو۔وائس چانسلر نے یہ نہیں بتایاکہ جن نامعلوم ایک ہزارطلبہ پرایف آئی آردرج کی گئی ہے،عام طلبہ کی گھرسے واپسی پران پراگرکارروائی ہوئی تووائس چانسلرکیاکریں گے؟چوں کہ کیس نامعلوم طلبہ کے نام ہے،کیاانھوں نے وزیراعلیٰ یااپنے جن سنگھی دوستوں کے یہاں جاتے رہے ہیں،ان سے بات کی ہے؟ وائس چانسلر نے کہا ”15دسمبر کی شب میں کیا گیا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی تھا۔انھوں نے طلبہ پرمشتعل ہونے کاالزام لگاتے ہوئے کہاکہ بنیادی طور سے اس کا مقصد ناراض طلبہ کو منتشر کرنا تھا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دو طلبہ کی موت کی جھوٹی خبر پر مشتعل ہوگئے تھے۔ جب ہم نے دیکھا کہ حالات قابو سے باہر ہوگئے ہیں تو وہ فیصلہ کرنا لازمی تھا“۔اپنے مکتوب میںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی عظیم تاریخی وراثت کی یاد دلاتے ہوئے طلبہ سے کہاکہ انھیں کسی بھی ایسے قانون کے خلاف جمہوری انداز میں پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے جسے وہ قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ پروفیسر منصور نے کہا ”یونیورسٹی انتظامیہ اور میں خودطلبہ کے حقوق پر قدغن لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ ایک مضبوط جمہوریت اپنے شہریوں کی متحرک حصہ داری پر منحصر ہوتی ہے ، خاص طور سے ایسے نوجوانوں پر جو ملک کا مستقبل ہیں“۔ پروفیسر طارق منصور نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ” جب آپ چھٹیوں سے واپس لوٹیں گے تو میں بطور وائس چانسلر کیمپس میں آپ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہوں اور محبت و احترام کے ساتھ تعلیمی سال کو پرسکون انداز میں مکمل کرنے میں آپکا تعاون چاہتا ہوں“۔ انھوں نے کہا ”انارکی کا ماحول پیدا کرنے سے بطور پرامن شہری ہمارا اعتبار مجروح ہوگا اور ہماری یونیورسٹی کے بارے میں پھیلائی جانے والی جھوٹی باتوں کو ان سے تقویت ملے گی“۔ وائس چانسلر نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عظیم تاریخی وراثتوں کی حامل ہے۔ سرسید احمد خاں کی ہمت اور ان کی دور اندیشی ہو، 1947میں اس ملک کو آزاد کرانے کی تحریک میں اے ایم یو کی حصہ داری ہو یا پھر اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی ملک کی تعمیر و ترقی میں عظیم خدمات ہوں ، ان سب سے اے ایم یو برادری کو تحریک ملتی ہے۔ پروفیسر منصور نے کہا ”بطور وائس چانسلر میں نے گزشتہ ڈھائی برسوں میں جو بھی فیصلے کئے وہ طلبہ اور ادارے کے مفاد میں تھے ، تاہم اگر آپ کو کچھ خدشات ہوں تو ان کے بارے میں کھل کر بات کریں تاکہ ان کا ازالہ کیا جاسکے“۔گزشتہ 15دسمبر کو پیش آئے واقعات پر رنج و افسوس کااظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ پولیس کارروائی میں لوگوں کو چوٹیں آئی ہیں اور وہ ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے ہیں اس پر انھیں سخت تکلیف پہنچی ہے۔ ایسے طلبہ اور ان کے اہل خانہ سے وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ پروفیسر منصور نے کہاکہ اس سلسلہ میں کئی طلبہ نے اے ایم یو انتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھائے حالانکہ انتظامیہ کی نیت صاف تھی ۔ انھوں نے کہا ”کئی دفعہ ناگہانی حالات ہمارے فیصلوں کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بعض دفعہ تنقید درست ہوتی ہے۔ ہم انکساری کے ساتھ ایسے فیصلوں سے سبق لیتے ہیں اور مستقبل میں بہتر ردّ عمل کا عزم کرتے ہیں“۔ وائس چانسلر نے کہاکہ ہاسٹل خالی کرانے کا فیصلہ ملک میں اُس وقت کے حالات کے پیش نظر کافی غور و خوض کے بعد کیا گیا تھا اور یہ کوشش کی گئی تھی کہ طلبہ کو کم از کم زحمت ہو۔حالانکہ کچھ طلبہ کو زحمت ہوئی جس پر انھیں سخت افسو س ہے۔ پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ یونیورسٹی انتظامیہ، بے قصور طلبہ کے ساتھ ہوئی ناانصافی پر انھیں انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر ے گی اورطلبہ کوایسے لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے جنھیں صحیح حالات و واقعات کا علم نہیں ہے۔ وائس چانسلر نے طلبہ کی فہم پر اعتمادکااظہار کرتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ ان کے درست اندیشوں کو مفاد پرست عناصر یرغمال نہ بنانے پائیں اور ایسے عناصر کی شناخت کرنے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد کریں جو طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پروفیسر طارق منصور نے مزید کہا” ہمارے بہت سے طلبہ عام پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور اس عظیم یونیورسٹی میں ملنے والی تعلیم ان کے مستقبل کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ہمیں اس بحران کے وقت میں مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمارے موجودہ طلبہ اور مستقبل کی نسلوں کی خوابوں اور امنگوں کو پورا کرتی رہے“۔ وائس چانسلر نے طلبہ کو یاد دلاتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنی انا، وقتی ردّ عمل اور قلیل مدتی فائدے کے خیال کو طویل مدتی مقاصد و اہداف پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے جن کے لیے یونیورسٹی قائم ہے۔وائس چانسلر نے طلبہ کے مفاد کے امور پر ان سے گفت و شنید کے اپنے عزم کو بھی دوہرایا۔






