دستور، ملک اور عوام مخالف قانون واپس لو آئین پر حملہ منظور نہیں،ظلم کے خلاف آواز دو،ابھی نہیں اُٹھے تو کبھی نہیں اُٹھنے دیا جائے گا

ئی دہلی (پریس ریلیز) فرعون کی طرح ہندستانیوں کو برہمن (اونچی ذات) اور غےر برہمن (نیچی ذات) میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ برہمنوں اور سنگھیوں کوتمام اختیارات دے کر غیر برہمنوں کوتمام حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ موب لنچنگ، انکاو¿نٹر اور نسل کشی کے ذریعہ غیر برہمنوں میں خوف و ڈر کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔تمام تہذیبوں کو ختم کر کے برہمنوں کی طبقہ واری تہذیب کو پروان چڑھانے کی گندی سازش چل رہی ہے۔اور اب غیر برہمن سواسو کروڑ ہندستانیوں کو گھر، جائداد اور شہری حقوق سے یکسر محروم کر دینے کے لیے قانون بنایا گیا ہے۔ CAA سیٹیزن شپ امینڈ منٹ ایکٹ،یعنی مذہب کے نام پر غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا قانون۔NRC (نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزن) قومی شہریت رجسٹریشن، یعنی حکومت کی من مانی شہری سرٹیفکیٹ کی تقسیم اور NPR (نیشنل پاپولیشن رجسٹریشن) یعنی جن گنا ، بی جے پی گورنمنٹ کے ذریعہ کی جانے والی جن گنا NRC کا پہلا قدم ہے۔جس میں ماں باپ کی جائے پیدائش وغیرہ کے بارے میں سوالات ہیں۔ چھ مہینے کے بعد اس کا پروف پوچھا جائے گا اور یہی این آر سی ہو جائے گی۔
ہم ہندستانی عوام CAA ، NRC اور NPR کو ریجکٹ اور بائیکاٹ کرتے ہیں۔ کیوں کہ :یہ بل دستورِ ہند کے دفعہ 5 ، 10، 14، 15 اور21 کے خلاف ، مذہبی تفریق پیدا کرنے والا، جمہوریت کو ختم کر کے غیر ہندستانی کو ہندستانی اور ہندستانیوں سے حق شہریت چھیننے والا غیر دستوری قانون ہے۔ یہ بل ہندستانیوں کو یکے بعد دیگرے (آج مسلمانوں کو، کل عیسائیوں کو ، پھر کمیونسٹوں کو ، پھر دوسروں کو) فسطائی طاقتوں کا شکار اور غلام بنانے ،تمام مذاہب کے ماننے والوں کی تہذیبوں اور مذہبی تشخصات کو ختم کر کے ”یکساں سول کوڈ“ نافذ کرنے اور ملک کے غدار اور انگریز کے وفادارساورکر اور گولوالکر کے نظریہ کو لاگو کرنے اور جمہوری ہندستان کو ختم کر کے ”ہندوتواراشٹر“ بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔ شہریت ترمیمی بل کے پاس ہونے سے ملک ایک جنونی مسلم مخالف سرزمین میں تبدیل ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری یا پھر غیر شہری بنانے کے لےے، انھیں اس بل سے الگ کرنا ہمارے سیکولر و جمہوری ملک کو ایک تاناشاہ اور نسل پرست ملک میں تبدیل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس نئے بل کے ذریعہ اس ملک کو ہندو راشٹر سے بڑھ کر ایک مسلم وِرُودھی راشٹر بنایا جا رہا ہے۔
سنگھ پریوار کے اشارے پر بی جے پی ملک کو خطرناک راستے پر ڈال چکی ہے۔ نوٹ بندی کرکے تقریباً 150 لوگوں کو موت کے گھات اُتاردیا گیا۔GST لگا کر ملک کے کروڑوں لوگوںکو بے روزگار کیا، اورجس عوام نے چن کر انھیں کرسیوں پر بیٹھایا انھیں کے خلاف قانون سازی شروع کر دی۔پہلے ہندستانی تہذیب کے خلاف ہم جنسی کو قانونی جواز فراہم کیا گیا،پھر شادی شدہ عورتوں سے ناجائز تعلقات کو جائز قرار دیا گیا، پھر دستور کے خلاف تین طلاق بل پاس کیا گیا،اس کے بعد کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کر نے کے لیے 370 کو ختم کیا گیا،جو دستور پر کھلا حملہ تھا۔ پھر 5 سوسالہ پرانی بابری مسجد پر غلط فیصلہ سنایا گیا، جو عالمی پیمانے پر عدالت عظمی کی توہین ہے۔ اس کے بعد ملک کے عوام کے خلاف این آر سی کا مسئلہ اُٹھایا گیا اور این آرسی کو ٹھیک کر نے کے لیے دستوری دفعات کو توڑ کر سی اے اے بل پاس کرایا گیا ، عوامی مخالفت کے بعد اب این آر سی کو چور دروازہ سے مکمل کرنے کے لیے این پی آر لایا جا رہا ہے۔
دستور ، ملک اور عوام مخالف کالے قانون کے خلاف جمہوری طریقے پر احتجاج کرنے والوںپر لاٹھیاں اور گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔ یوپی میں غنڈا راج کا نظارہ ساری دنیا نے دیکھا ہے اور اب حکومت اور پولیس کی ناکامی اور غنڈہ گردی کو چھپانے کے لیے ایک دستوری تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر اس کا الزام تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو سراسر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ہم تمام ہندستانی پاپولر فرنٹ کے ساتھ ہیں۔
جو لوگ آج اس بل کی حمایت کر رہے ہیں، کل انھیں اپنی نسلوں کی حالت ِ زارپر رونا پڑے گا اور تب اس رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ابھی وقت ہے ۔ ابھی ہوش سے کام لے کر نہیں لیا گیا تو پھر کبھی اس کا موقع نہیں ملے گا۔
اپنے ملک کے عوام پر ظلم ڈھانا بی جے پی اور بی جے پی والی ریاست کی پہچان بن چکی ہے۔ آسام اور یوپی کی داستان ہمارے سامنے ہے۔
ہندستان کا بچہ بچہ دستور کے خلاف اس بل کی مخالفت کرتا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے جمہوری طریقے سے آخری دم تک قانونی لڑائی جاری رکھے گا۔

حکومت سے مطالبات:
– دستور، ملک اور عوام مخالف قانون سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر واپس لیا جائے۔
– سی اے اے -این آر سی کے خلاف ہو رہے پُرامن و جمہوری احتجاجات میں رکاوٹ ڈالنا بند کیا جائے۔
– عوامی تنظیموں اور سماجی کارکنوں پر الزامات عائد کرنے کا گندا کھیل بند کیا جائے۔
– کرفیو، چھاپہ ماری اور جبراًحراست میں لینے جیسے تمام ظالمانہ طریقوں اور پولیس کی زیادتیوںکو فوری طور پر روکا جائے۔
– راتوں کو گھروں میں گھس کر بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو ڈرانے، دھمکانے اور توڑ پھوڑ کرنے والی پولیس پر کاروائی کی جائے۔
– احتجاجیوں اور غیر احتجاجیوں پر لاگو تمام جھوٹے مقدمات کو واپس لیا جائے۔
– تمام حراست میں لئے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے۔
– مقتول اور زخمی افراد کے اہل خانہ کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔
– خاطی پولیس اور افسران کے خلاف فوری طور پر قانونی کاروائی کی جائے۔
– مدرسوں کے بچوں اور استادوں، مسجدوں کے اماموں اور علماءپر جو جبراً ظلم کیا جارہا ہے۔ اس کو فوراًروکا جائے۔ ظلم ڈھانے والے ظالموں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
– فائرنگ کے واقعات سمیت ہر طرح کے مظالم میں پولیس کے کردار پر عدالتی تفتیش کا حکم دیا جائے۔
اسی کے ساتھ ہم تمام شہریوں اوراحتجاج کرنے والی تمام سول سوسائٹی کی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے پرامن احتجاجات مسلسل جاری رکھیں اور خیال رکھیں کہ باہری دخل اندازوں یا پولیس کی وجہ سے احتجاجات تشدد کا رخ نہ اپنانے پائیں۔
پریس کانفرنس میں مولانا محمد احمد بیگ ندوی، قومی صدر: آل انڈیا امامس کونسل، و استاد ندوة العلماءلکھنو¿، یوپی۔مفتی حنیف احرار قاسمی سوپولوی، قومی ناظم عمومی: آل انڈیا امامس کونسل۔مولانا جعفر صادق فیضی، نیشنل سکریٹری: آل انڈیا امامس کونسل۔مفتی ارشاد قاسمی، نائب صدر: آل انڈیا امامس کونسل دہلی۔مولانا شاداب قاسمی، ریاستی صدر : آل انڈیا امامس کونسل مغربی یوپی نے شرکت کی ۔