اب زمیں خون اگلتی ہے تو شکوہ کیسا؟

رامیش فاطمہ
پچھلے کچھ دنوں میں درجنوں واقعات سامنے آئے جن میں بیشتر افراد کو اغوا کار ہونے کے شبے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ایک خاتون پہ اتنا تشدد کیا کہ اس کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئیں، صرف ملتان میں تیرہ دن کے اندر بائیس مختلف افراد پہ تشدد کیا گیا اور کسی ایک کا تعلق بھی اغواکاروں کے گروہ سے نہیں تھا۔ والدین عدم تحفظ کا شکار ہیں، بچوں کو کھونے سے ڈرتے ہیں ۔سیدھا سا جواز ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی سو ہم اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
یہ موقع پہ عدالت لگانے اور مدعی ، منصف سب خود ہی بننے والوں سے ہم سب پوچھنا چاہتے تھے کہ یہ ملزم کسے وکیل کریں کس منصفی چاہیں؟ گلہ کرنا تھا کہ محتاط ہونا اور بات ہے لیکن کسی انجان پہ کوئی شبہ ہو تو اسے حوالۂ پولیس کریں ، یہ بدتہذیبی کیوں کہ خود ہی مار پیٹ شروع کر دی۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ گلہ کیا جاتا محترم ذوالفقار چیمہ صاحب کا کالم بازار میں آ گیا، اس اعترافِ جرم نما کالم میں جس فخریہ انداز میں ماورائے عدالت قتل کا مقدمہ پیش کیا گیا اور جیسے لوگوں نے نظام کی بوسیدگی اور پیچیدگی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو سراہا اور اسکے حق میں جواز پیش کیئے تو گلہ کرنے کا جواز ہی چھن گیا ہم سے۔
کہاں تو لاپتہ افراد، جبری گمشدگی جیسے واقعات پہ ہم آواز اٹھاتے ہیں کہ ایسے ماورائے عدالت اقدامات نظام کو اور ریاست کو کمزور تو کرتے ہیں پر مضبوط نہیں کرتے اور کہاں یہ نامی گرامی سابق افسر ایک غلط قدم کا جواز پیش کر رہا ہے۔ اپنی عدالت لگانے کا اختیار نہ ملک اسحاق کو مارنے والوں کے پاس ہے، نہ کسی نتھو خیرے کو مارنے والے کے پاس اور نہ ہی واحد بلوچ کو اٹھانے والوں کے پاس، لیکن جب ادارے اور ان سے وابستہ افراد ایسے ریاستی جبر کا جواز پیش کرنے لگ جائیں تو عوام کو کیسے روکا اور سمجھایا جائے کہ یہ غلط ہے۔

کبھی مبینہ توہین مذہب کے الزامات پہ فردِ واحد یا ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، کبھی مبینہ اغواکار پہ تشدد کر کے ٹانگیں توڑی جاتی ہیں، کبھی مبینہ غفلت پر احتجاج کے نام پر ہسپتال کے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر اکثر مبینہ پولیس مقابلے کی حقیقت قتل کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
تفریح کے مواقع نہیں، فنونِ لطیفہ میں دلچسپی نہیں، کتاب ہم پڑھتے نہیں، انسان اپنے سوا کسی کو انسان ماننے پہ تیار نہیں شاید اسی لیئے ہم تشدد پسند ہوتے جا رہے ہیں ۔ رشتوں میں ناچاقی، بیروزگاری، معاشی عدم توازن اور اداروں پہ عدم اعتماد کا غصہ ہم اپنے جیسے لوگوں پہ اتار رہے ہیں ، شاید یہی ایک کام ایسا ہے جس میں ہم آزاد ہیں کہ جب بھی اٹھائیں گے، ہاتھ ہی اٹھائیں گے، کبھی آواز نہیں اٹھائیں گے۔(ملت ٹائمز)
(مصنفہ پاکستان کی سماجی کارکن اور آزاد جرنلسٹ ہیں )